ترکی کی جانب سے مسلسل الزامات کے بعد امریکی محکمہ انصاف نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ تمام الزامات کی تحقیقات کے لئے ایک ٹیم ترکی بھیجے گا۔ یہ ٹیم فتح اللہ گولن پر لگنے والے الزامات کی تحقیقات کے علاوہ ترکی میں حالیہ ناکام بغاوت میں ان کے کردار کا جائزہ بھی لے گی۔
امریکی میڈیا کے مطابق ترک حکومت کی جانب سے مسلسل الزامات کے بعد امریکی حکومت پر دباؤ تھا۔ تاہم اگر الزامات ثابت ہو گئے تو گولن کو ترکی کے حوالے کیے جانے کا امکان ہے۔
کچھ دن قبل اردوان نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’’امریکا کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ اسے ترکی اور گولن میں سے کون چاہیے۔‘‘
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ جب تک تمام الزامات مکمل طور پر ثابت نہیں ہوں گے، فتح اللہ گولن کو ملک بدر نہیں کیا جائے گا۔ اگر ایسا موقع آیا بھی تو شاید اس بات کا امکان ہے کہ انہیں کسی اور ملک بھیج دیا جائے۔
ادھر نیویارک ٹائمز نے ذرائع کے حوالے سے ایک سرکاری اہلکار کا یہ بیان شائع کیا ہے کہ ’’اب تک ترکی نے گولن کی ملک بدری کے لئے کوئی درخواست نہیں دی۔ جب تک باضابطہ درخواست موصول نہ ہو، گولن کو کچھ بھی نہیں کہا جائے گا۔ اگر سب ثابت بھی ہو جائے تو گولن عدالت میں ایک اپیل کی درخواست کر کے کئی سال تک اس عمل کو روک سکتا ہے۔‘‘