19اگست۔ انسان دوستی کا عالمی دن

رانا اعجاز حسین

اس پر فتن دور میں بھی انسانیت سے محبت ، انسانیت کی فلاح و خیر خواہی اور انسانیت سے دوستی کے لئے بے لوث خدمات سرانجام دینے والے افراد کی کمی نہیں۔ درحقیقت معاشرہ ان نیک سیرت و مخلص کردار لوگوں کی وجہ سے ہی قائم و دائم ہے۔

اگر دنیاسے انسانیت کے خیر خواہ بالکل ختم ہوجائیں تو جنگل کے سے معاشرتی نظام کے باعث پرامن و فلاحی معاشرہ کا وجود ناممکن ہوجائے ۔ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام مختلف سماجی تنظیموں کے تعاون سے پاکستان سمیت دنیابھر میں ہرسال 19اگست کا دن انسان سے دوستی کے عالمی دن کے طور پر اس عزم کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ انسانی فلاح و بہبود کے لئے بے لوث جذبے کے تحت کام کرنے والے امدادی کارکن اور اداروں کی خدمات کو سراہا جائے گا۔

انسانی فلاح و بہبود کے لئے متحرک افراد کا خیال رکھا جائے گااور انسانی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنے والے امدادی کارکن کی خدمت کے اعتراف میں ہرممکن حوصلہ افزائی کی جائے گی تاکہ لوگوں میں انسانیت کی خدمت اور انسانوں سے دوستی و خیر خواہی کا جذبہ پروان چڑھے ۔

اقوام متحدہ کی جانب سے انسان دوستی کا عالمی دن منانے کا فیصلہ 2008ءمیں کیا تھا جس کے بعد سے اس دن کو پاکستان سمیت دنیابھر کے بیشتر ممالک میں انتہائی جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے ۔

بلاشبہ دنیا میں سارے انسان مفاد پرست ، خود غرض نہیں ہوتے بلکہ انسانیت سے بے لوث محبت کرنے والے انسان بھی اس دھرتی پر بستے ہیں جو انسانیت کے تقاضوں پر حقیقی معنوں میں عمل پیرا ہوکر انسان کا سر فخر سے بلند کردیتے ہیں۔

انسانیت سے دوستی اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے خدمات سرانجام دینے میں مسلمانوں کی ذمہ داری اور قوموں اور طبقوں سے زیادہ ہے کیونکہ ہمارے پیارے مذہب اسلام کا بنیادی درس ہی فلاح انسانیت و خیر خواہی ہے ۔

انسانوں کی بے لوث خدمت کے لئے مسلمانوں کی قربانی انسان دوستی کے بیش قیمت جذبوں کی ترجمانی کا فریضہ سر انجام دیتی ہے اور انہیں دوسرے انسانوں سے ممتازکرتی ہے۔ اگر معاشرہ کو انسان کے لئے مفید بنانا ہے تو اس کا ط ریقہ فقط یہی ہوسکتا ہے کہ انسان دوسروں کے کام آئے ، اور ہردوسرے انسان کی بھلائی کی کوشش کے لئے ہر وقت متحرک رہے۔

اسی مقصد کی تکمیل کے لئے اللہ رب العزت نے تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا ہے ۔سنن ابوداود کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺکا ارشاد گرامی ہے’’اے مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہے۔اور ایک مومن دوسرے مومن کا بھائی ہے، ضرر کو اس سے دفع کرتا ہے،اور اس کی پاسبانی اور نگرانی کرتا ہے۔‘‘

معاشرے میں موجود غربت ،مایوسی، فکرمعاش ، احساس محرومی ، مہنگائی، ناگواری کی کیفیت،اور معاشرتی ناہمواریاںتیزی سے لو گوں میں ذہنی دباؤ¶ اور افسردگی کا باعث بن جاتی ہیں۔ ان گھمبیر حالات میں انسانیت سے محبت رکھنے والے افراد کی جانب سے فلاح انسانیت کے لئے فراہم کی جانے والی خدمات کٹھن حالات کو بھی آسان کردیتی ہیں ۔

وہ لوگ واقعی بڑے باہمت، قابل دادو ستائش ہیں جو دوسروں کے لیے اپنا وقت نکالتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہیں۔ ایسے لوگ اگرچہ کم ہیں، لیکن ہیں ضرور۔

وقتاً فوقتاً درد دل رکھنے والے افراد کے انسانوں کے لیے قربانیوں کے واقعات سننے کو ملتے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود انسان کو فی زمانہ جتنی انسانیت کی ضرورت آج ہے، شاید پہلے کبھی نہیں تھی۔ ہر انسان اگر یہ عہد کر لے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق جہاں ضرورت پڑے اور موقع ملے تو ضرور دوسروں کی مدد کرے گا۔

مجبور اور ضرورت مند لوگوں کی چھوٹی بڑی ضروریات حل کرنے میں تعاون کرے گا۔ کسی غریب طالب علم کی تعلیم کا خرچ، کسی غریب کی بیٹی کی شادی کا خرچ، کسی بے روزگار کی نوکری کا انتظام، کسی غریب بیمار کے علاج کا انتظام اور موقع ملنے پر ہر ایسا کام کرے گا جس سے کسی انسان کی ضرورت پوری ہوتی ہو۔

یقین کیجیے اس عمل سے دنیا بدل جائے گی ،دنیا میں سکون ہی سکون کا راج ہوگا اور محبت کی حکمرانی ہوگی۔ دوسروں کی مدد کرنا نا صرف دوسروں کے لیے ہی فائدہ مند ہے، بلکہ اس سے مدد کرنے والے کو بھی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔

دنیا و آخرت کی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ عجیب پرکیف ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے ،یہ بات وہی لوگ جانتے ہیں جوخدمت خلق کی مثالی لذت کو محسوس کرچکے ہیں۔ دہشتگردی کی لہر ہو، نسلی فسادات یا دیگر سانحات، انسانیت سے محبت کرنے والے خیر خواہوں کا بے لوث کردار ہمیشہ سے نہایت اہمیت کا حامل رہا ہے۔

بہت سے انسان دوستوں نے جذبہ خیرخواہی میں اپنا روزگار، مال و دولت سب کچھ گنوادیا، مگر جذبہ خدمت خلق کو نہیں چھوڑا ۔یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری حکومت خدمت خلق کے جذبے سے سرشار لوگوں کی سرپرستی و معاونت کرے۔

غور طلب بات ہے کہ دہشت گردی و سانحات میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین کو حکومت کی جانب سے امداد مل جاتی ہے مگر کوئی رضا کار سانحہ میں وفات پاجائے تو اس کے ورثاءامداد سے محروم رہتے ہیں لیکن پھر بھی انسانیت سے خیر خواہی کا جذبہ ان میں موجود رہتا ہے کیونکہ انسانیت کے یہ عظیم دوست جانتے ہیں کہ اپنے لئے تو سب ہی جیتے ہیں اصل جینا دوسروں کے لئے جیناہے ، بلاشبہ یہی راحت بھری حقیقی زندگی ہے ۔

تعارف :

رانا اعجاز حسین سینئر ورکنگ جرنلسٹ ہیں ۔ روزنامہ سائے پاکستان کی بطورسب ایڈیٹر اور روزنامہ کماس کی بطور بیوروچیف ملتان ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ روزنامہ نوائے وقت اور پاکستان بھر کے اخبارات میں کالم لکھتے ہیں ۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: