کراچی سرکلر ریلوے سنہری یادیں

محمد ارشد قریشی

تقریباً دو کروڑ آبادی والا پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی  اب تک  مناسب پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولیات سے محروم ہے۔ کراچی کی تیزی سے بڑھتی اپنی آبادی اور پاکستان کے مختلف شہروں سے روزگار کے لیے آنے والے لوگوں میں روز بروز اضافے کے باوجود اس شہر میں رہنے والے شہریوں کو وہ سفری سہولیات میسر نہیں ہیں جو ہونی چاہیے۔

یوں تو ہر آنے والی حکومتوں نے اس شہر کی ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے کئی اعلانات کیے جن میں گرین بس اور  میٹرو بس  وغیرہ شامل ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کسی بھی اعلان کردہ منصوبے پر عمل نہیں ہوا یا پھر اگر کسی پر ہوا بھی تو اسے کچھ ہی عرصے بعد ختم کردیا گیا  ۔

ماضی میں اس شہر میں بہت سی سرکاری بسیں (کے ٹی سی ) کے تحت چلتی تھیں  جن میں اسٹوڈنٹس کو بھی رعایتی  کرائے پر سفری سہولت حاصل تھی لیکن رفتہ رفتہ  یہ بسیں بند کردی گئیں ۔ ان بسوں کے ٹرمینلز جنھیں ڈپو کہا جاتا ہے وہ شہر کے کئی مقامات پر اب بھی موجود ہیں ۔

اسی طرح ماضی میں اس شہر کراچی میں ایک ریلوے کا مربوط  نظام سرکلر ریلوے موجود تھا  جس سے اس شہر کو صاف ستھری بہترین سفری سہولت میسر تھی ۔ سرکلر ریلوے کا منصوبہ 1969 میں پاکستان ریلوے کی جانب سے شروع کیا گیا تھا  جس کے تحت  ڈرگ روڈ سے  سٹی اسٹیشن تک خصوصی ٹرینیں  چلائی گئیں جو نہایت کامیاب رہیں ۔

ایک اندازے کے مطابق اس سہولت سے سالانہ 60لاکھ  افراد کو فائدہ پہنچتا تھا ۔ عوام میں بے پناہ پذیرائی اور  ریلوے نظام کو  کافی فائدہ ہونے کی بنا پر   اس سرکلر ریلوے  سروس کی مقبولیت کو مدنظر رکھتے ہوئے  1970 سے 1980 کے درمیان  کراچی سرکلر ریلوے  کے تحت روزانہ کی بنیاد پر 104 ٹرینیں چلائی جانے لگیں  جن میں سے  24 ٹرینیں لوکل لوپ  ٹریک اور 80 مین ٹریک پر چلائی گئیں ۔

کراچی سرکلر ریلوے لائن  ڈرگ  روڈ اسٹیشن سے شروع ہوکر لیاقت آباد سے ہوتی ہوئی  کراچی سٹی اسٹیشن پر ختم ہوتی تھی جب کہ  پاکستان ریلوے کی مرکزی ریلوے لائن پر بھی کراچی سٹی اسٹیشن سے لانڈھی اور کراچی سٹی اسٹیشن سے ملیر چھاونی تک ٹرینیں چلاکرتی تھیں جن سے  سینکڑوں  لوگ روز مستفید ہوتے تھے۔

لیکن بدقسمتی سے 1992 کی دہائی  میں کئی ٹرینیں ریلوے کو خسارہ ہونے کی بنیاد د  بتا کر بند کردی گئیں لیکن اس وقت کی زیادہ تر جو خبریں اخبارات کی زینت بنیں اس میں ایک ہی وجہ نظر آئی کہ  ایسے افراد کو ریلوے کی وزارتیں سونپ دی گئیں جن کا  کاروبار ٹرانسپورٹ سے منسلک تھا ۔

کراچی کی پرائیویٹ ٹرانسپورٹ مافیا  اور رشوت کے زہر آلود نظام کے اژدھے نے بالاآخر  1999 میں عوامی بھلائی کے اس منصوبے کو مکمل طور پر نگل کر ختم کردیا۔

بعد میں ہر آنے والی حکومتوں نے اس شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی  اور ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس منصوبے کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے  کئی بار فزیبلٹی  رپورٹ تیار  کی  اور اس کی منظوری ہونے کے باوجود اس منصوبے کو شروع نہ کیا جاسکا ۔

2005 کے اوائل میں اس وقت ایک امید کی کرن نظر آئی تھی جب جاپان انٹرنیشنل کواپریشن  ایجنسی  نے کراچی سرکلر ریلوے کے لیے  آسان شرائط پر قرضہ دینے کی پیش کش کی  اور اس کی منظوری کی صورت میں  اس ایجنسی   کے اشتراک سے کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے پر  کام شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ۔

جاپان کی ایجنسی نے  اس منصوبے کے لیے 2ارب  40کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی پیش کش کی تھی لیکن  نہ جانے کن وجوہات کی وجہ سے ایک بار پھر اس منصوبے کا فائلوں کی نظر کردیاگیا۔

اس کی بھی بنیادی وجہ جو سامنے آئی تھی  وہ یہ کہ جاپان نے اس منصوبے میں سرمایہ کاری کو کرپشن سے پاک رکھنے کے لیے  اپنی زیر نگرانی سخت مانیٹرنگ سے مشروط کیا تھا  ااور دوسری شرط یہ رکھی گئی تھی کے اس  50کلو میٹر طویل سرکلر  ٹریک کے روٹ میں آنے والی ریلوے اراضی پر جو لوگ قابض ہیں انہیں حکومت  متبادل اراضی دے ۔

جاپان کے اعلان اور منصوبہ شروع ہونے کے امکان کے بعد 2010 میں با اثر شخصیات نے نہ صرف ریلوے اراضی پر بڑی تعداد میں لوگوں کو بٹھا دیا  بلکہ اندورن سندھ سے آئے ہوئے سیلاب زدگان کو بھی دانستہ ان زمینوں پر آباد کردیا تھا ۔

ادھر ٹرانسپورٹ مافیا بھی منصوبے کی راہ میں مشکلات پیدا کرنے میں متحرک ہوگیا ۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی  بلکہ مزید آگے بڑھتی ہے۔ یہ بات اس وقت کی ہے جب انڈیا کی وزارت ریلوے لالو پرشاد کے پاس تھی اور ریلوے نظام میں ایک نئی جان آ گئی لیکن پاکستان ریلوے نے مزید دو اہم ٹرینیں اچانک بند کردیں۔

یہ ٹرینیں مہران ایکسپریس اور شاہ لطیف  بھٹائی ایکسپریس تھیں جو کراچی سٹی اسٹیشن سے میرپورخاص تک دن میں مختلف اوقات میں چلا کرتی تھیں۔  ان ٹرینوں سے حیدرآباد، ٹنڈوجام ، ٹنڈوالہ یار اور میرپورخاص کے لوگوں کو بہت سہولیات میسر تھیں جن میں سب سے زیادہ فائدہ ان ملازمت پیشہ لوگو ں کو تھا۔ جو روزانہ حیدرآباد سے کراچی یا کراچی سے حیدرآباد جایا کرتے تھے ۔

اس مضمون کو لکھنے کےحوالے سے جب میں نے محکمہ ریلوے کے ایک ریٹائرڈ  افسر سے پوچھا کہ سرکلر ریلوےتو بہت عمدہ نظام تھا پھر اسے بند کرنے کی کیا وجہ تھی ۔ اس سوال کا جواب انہوں نے کچھ یوں دیا کہ ’’کوئی بھی منصوبہ اس وقت تک ناکام نہیں ہوتا جب تک اسے اس کے اندر سے نقصان نہ پہنچایا جائے ۔ کراچی سرکلر ریلوے سے لوگوں نے اس وقت منہ موڑنا شروع کردیا تھا ، جب ان ٹرینوں کا تاخیر سے آنا جانا روز کا معمول بن گیا ۔‘‘

’’ان ٹرینوں میں طالب علم، ملازمت پیشہ افراد اور تاجران کی کثیر تعداد سفر کرتی تھی لیکن جب وہ وقت پر اپنے اداروں میں نہیں پہنچ پاتے تھے تو ان کے لیے یہ سفری سہولت بے فائدہ تھی ۔ انہیں دانستہ تاخیر سے لایا جاتا تھا جن میں ریلوے کے افسران اور ملازمین ملے ہوئے تھے جنہیں اس کے عوض معاوضہ دیا جاتا تھا  گویا یوں کہنا بجا ہوگا کہ گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔ ‘‘

اب کچھ ذکر ماضی کے اس سنہرے سفر کا جن لوگوں نے کراچی سرکلر ریلوے سے سفر کیا  ہے۔ وہ اس پر لطف سفر سے بخوبی آگاہ ہیں اس سرکلر ریلوے میں ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد سفر کرتے تھے۔ یہاں تک دیکھا جاتا تھا کہ لوگ اپنی کاریں ریلوے اسٹیشن پر پارک کر کے اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے اس سرکلر ریلوے کے سفر کو ترجیح دیتے تھے۔

طالب علم ، ملازمت پیشہ افراد، تاجر اور کارباری حضرات نہ صرف روزانہ ٹکٹ لے کر سفر کرتے تھے بلکہ ماہانہ پاس بھی بنوائے جاتے تھے  اور ٹکٹ بھی بوگی میں ہی فراہم کردیئے جاتے تھے۔ صبح کے اوقات میں ان بوگیوں میں وہ منظر دیکھائی دیتے تھے کہ جیسے کہ کوئی پوری سوسائٹی ریلوے لائین پر دوڑ رہی ہو۔ خواتین کی بوگیوں میں اسکول و کالج کی بچیاں مطالعہ کرتے ہوئے سفر کرتی تھیں تو ایک بوگی میں لوگ قرآن کی تلاوت کرتے نظر آتے تھے۔

کسی بوگی میں  درس قرآن ہورہا ہوتا تھا ، کسی میں سیاسی حالات پر بحث مباحثہ ہورہا ہوتا تھا، کسی بوگی میں اخبارات کا مطالعہ ہورہا ہوتا تھا تو کسی میں اخبار ات کے ہاکر اخبارات کو ترتیب دے رہے ہوتے تھے ۔ اسی طرح شام میں جب لوگ اپنے گھروں کو لوٹتے تھے تو ان ٹرینوں کا منظر کچھ اور ہوتا تھا۔ کسی بوگی میں لوڈو، کسی میں کیرم اور کسی میں تاش کھیلا جارہاہوتا تھا ۔

کسی میں غزل کی محفل جمی ہوتی تھی آج کل کے شوشل میڈیا سے وہ  شوشل ٹرینوں کے رابطے  کہیں زیادہ مضبوط تعلقات کا زریعہ سمجھے جاتے تھے   لیکن افسوس یہ اب ماضی کا حصہ بن چکا ۔

07 جون 2013 کو سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ نے  کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لئے  2.6 ملین امریکی ڈالر کے منصوبے کی منظوری دی   جس میں  کئی نئے اسٹیشن اور ان اسٹیشنوں کے مطابق کئی نئے بس روٹس چلانےکا اعلان بھی کیا گیا لیکن  ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر نہ  جانے کن وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ کھٹائی کا شکار ہوگیا  اور اب  کچھ معلوم نہیں کہ یہ سرکلر ریلوے منصوبہ کبھی بھی پایہ تکمیل تک پہنچ سکے گا یا اس شہر کے لوگ ایک آہ بھر کر اس ماضی کی سنہری یاد کو ہمیشہ ماضی کا ایک خوبصورت باب جان کر ہی یاد کریں گے ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں  ذرائع نقل و حمل کسی بھی ملک کی ترقی کا ایک اہم ذریعہ ہوتے ہیں  اور پوری دنیا میں ذرائع نقل و حمل میں ریلوے  نظام کو  بہت اہمیت حاصل ہے  اس حوالے سے گزشتہ دہائی  کے دوران تیز رفتار ترقی کرنے والے ممالک کا مشاہدہ کیا جائے تو  معلوم ہوتا ہے کہ ان ممالک نے ریلوے نظام اور خاص طور پر سرکلر ریلوے پر بہت زیادہ توجہ دی جن میں چین،بھارت، تھائی لینڈ،ملائشیاء ، انڈونیشیاء ، امریکہ، جرمنی، جاپان اور سنگاپور   شامل ہیں۔

ان تمام ممالک نے سرکلر ریلوے پر بھر پور توجہ دی جس کی وجہ سے ان ممالک کی ترقی میں اس نقل و حمل  کے زرائع  نے بہت کلیدی کردار اد کیا  جب کہ  پاکستان  میں بدقسمتی سے اس نظام کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت  کمزور کیا گیا ۔ جو نہ صرف کراچی کے عوام کے لیے  تکلیف کا باعث بنا  بلکہ وطن عزیز کی ترقی کو بھی نقصان پہنچایا گیا اور یہ عمل تا حال جاری ہے۔

 

محمد ارشد قریشی فری لانس صحافی، کالم نگار، بلاگر اور شاعر ہیں

انٹرنیشنل ریڈیو لسنر زکلب کے صدر

چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل کے پروگرام مونیٹر

فاورق آباد اور نئی لگن کے بیوروچیف کراچی ہیں

ہماری ویب رائٹرز کلب کی گورننگ باڈی کے رکن بھی ہیں

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: