میرے چھ سالہ بیٹے کو ملازمت چاہیے!

ہوجوچانگ

یہ مضمون ’’ہوجو‘‘کے طویل مضمون کا چھٹا حصہ ہے، پانچواں حصہ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔
میرا ایک 6سال کا بیٹا ہے۔ اُس کا نام ’جن گیو‘ ہے۔ وہ اپنی ضروریات کے لئے مجھ پر انحصار کرتا ہے۔ میں ’جن گیو‘ کی رہائش، خوراک ،تعلیم اور صحت سے متعلقہ ضروریات کا خیال رکھتا ہوں لیکن اس عمر کے لاکھوں بچے دنیا میں کام کر رہے ہیں۔ اٹھارویں صدی عیسویں میں ’دانیال دیفو‘ کا خیال تھا کہ بچے چار سال کی عمر ہی سے کام شروع کر سکتے ہیں۔ مزید برآں کام سے ’جن گیو‘ کے کردار پربھی مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

فی الحال ’جن گیو‘ اقتصادی تحفظ کے حصار میں زندگی گزار رہا ہے اور اسے پیسے کی قدر نہیں۔ اُسے یہ احساس بھی نہیں کہ اُس کے ماں باپ کیسے جتن کر کے اُسے زندگی کی تلخیوں سے بچا رہے ہیں۔ ’جن گیو‘ کو ضرورت سے زیادہ تحفظ فراہم کیا جاتا ہے، لہٰذا اُسے بیرونی دنیا کا سامنا کرنے کے لئے تیار کرناضروری ہے تاکہ وہ مزید کار آمد انسان بن سکے۔

2

میری خواہش ہے کہ وہ جلداز جلد حالات کا مقابلہ کرنا سیکھ جائے کیونکہ یہ کام جتنا جلدی ہو، ’جن گیو‘ کے مستقبل کے لئے اتنا اچھا ہو گا۔ یوں وہ ذہنی طور پر سخت محنت کرنے کے لئے تیار ہو جائے گا۔ میری کوشش ہو گی کہ وہ سکول چھوڑدے اور کوئی کام شروع کردے۔ شاید میں ایک ایسے ملک میں چلا جاؤں جہاں بے شک بچوں کا کام کرنا قانونی طور پر جائز نہ ہو مگر اسے معیوب نہ سمجھا جائے تاکہ اسے کام ملنے کے امکانات زیادہ سے زیاد ہ ہوں۔

آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ میں یقیناپاگل ہو گیا ہوں یا شاید تنگ نظر اور ظالم ہوں۔ آپ کہیں گے کہ مجھے اپنی اولاد کو تحفظ دینا چاہیے اور اس گھٹیا سوچ کو رد کر کے اپنی اولاد کی بہتر پرورش پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے۔ اگر میں ’جن گیو‘ کو چھ برس کی عمر میں لیبر مارکیٹ میں دھکیل دیتا ہوں تو وہ زیادہ سے زیادہ جوتے پالش کرنے کا ماہر یا ایک کامیاب پھیری والا بن سکتا ہے مگر پھر وہ کبھی کامیاب سرجن یا ایک بہترین ایٹمی سائنسدان نہیں بن پائے گاکیونکہ بہترین ایٹمی سائنسدان یا سرجن بنانے کے لئے مجھے ’جن گیو‘ کی تعلیم اور تحفظ پر مزید بارہ سال محنت اور سرمایہ لگانا پڑے گا۔

enjoy-capitalism-1301

مزید برآں آپ یہ تجویز بھی دے سکتے ہیں کہ مادی حوالے سے بھی میرے لئے یہی سودمند ہے کہ میں اپنے بچے کی تعلیم پر اخراجات سے کترانے کے بجائے تعلیم پر پیسے لگاؤں۔ اگر میں درست بات کر رہا ہوتا تو پھر اولیورٹوئسٹ کےلئے بھی بہتر تھا کہ وہ ایک جیب کترا بنا رہتا اور ’مسٹر براؤن لو‘ جیسے گمراہ ’اولیور‘ کو اس کام سے نجات نہ دلاتے کیونکہ انہوں نے ’اولیور‘ کو لیبر مارکیٹ میں مقابلہ کے موقع سے محروم کردیا۔

ایسی مضحکہ خیز دلیل کی بنیاد پر آزاد تجارت کے حامی چاہتے ہیں کہ ترقی پزیر ممالک جلد از جلد اپنی معیشتوں پر موجود تمام پابندیاں اٹھا لیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ جلد از جلد ترقی پزیر ممالک کے صنعتکاروں کو آزاد منڈیوں میں مسابقت کے لئے تیار کرنا چاہے تاکہ صنعتکاروں کو اپنی بقا کے لئے درکار استعداد اور صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کی ترغیب ملے کیونکہ تحفظ کی پالیسی کا نتیجہ کاہلی اور آرام طلبی کی صورت میں نکلتا ہے۔ اسی وجہ سے ترقی پزیر ممالک جتنی جلدی مقابلے کی فضا میں داخل ہوں گے اتنے ہی بہتر نتائج نکلیں گے۔

جہاں تک ترغیب کا تعلق ہے تو یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔دوسرے رخ استعداد ہے۔ اگر ’جن گیو‘ چھ سال کی عمر میں سکول کو خیرآباد کہہ کر کام شروع کر دے تو بعدازاں اسے بیس ملین پاؤنڈ کے انعام کا لالچ دو یا پھر سر میں گولی مارنے کی دھمکی، پھر اُس میں دماغی سرجن بننے کی اہلیت نہیں ہو گی۔

یونہی اگر ترقی پزیر ممالک کی صنعتیں عالمی مسابقت کی زد میں آ گئیں تو کبھی پروان نہیں چڑھ سکیں گی۔ انہیں اپنی استعداد میں اضافہ کے لئے وقت درکار ہے تاکہ یہ صنعتیں جدید ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کریں اور ساتھ ساتھ اپنا نظم ونسق بھی بہتر بنائیں۔

امریکہ کے پہلے وزیر خزانہ ’الیگزنڈر ہملٹن‘ کانوخیز صنعتوں کی ترقی کے بارے میں پیش کردہ نظریہ آج بھی درست ہے اور یہی نظریہ اس سے پہلے او ربعد میں آنے والے پالیسی سا زاستعمال کرتے رہے۔فطری طور پر میں ’جن گیو‘ کو جو تحفظ فراہم کرنا چاہتا ہوں۔ اس کا مقصد یہ نہیں کہ میں اُسے ہمیشہ مسابقت سے دور رکھوں گا۔

تاہم ’جن گیو‘ کو چھ سال کی عمر میں کام کرنے پر مجبور کرنا غلط ہے اوریونہی چالیس سال کی عمر میں ’جن گیو‘ کو امداد یا اعانت فراہم کرنا بھی غلط ہو گا۔ آخر کار اُسے بیرونی دنیا کا سامنا کرنا ہے، اپنے لئے ملازمت حاصل کرنا ہے اور ایک خود مختارزندگی گزارنا ہے۔

’جن گیو‘ کو صرف مناسب ملازمت ملنے تک تحفظ درکار ہے تاکہ مناسب تنخواہ والی ملازمت کے لئے ’جن گیو‘ صلاحیت حاصل کر لے۔یونہی بچوں کی غلط پرورش کے نتائج والدین کو بھگتنا پڑتے ہیں اور نوخیز صنعتوں کو تحفظ دینے کے غلط نتائج بھی برآمد ہو سکتے ہیں۔ جیسے بعض والدین بچوں کے معاملے میں ضرورت سے زیادہ حساس ہوتے ہیں، یونہی بعض اوقات حکومتیں نو خیز صنعتوں کو ضرورت سے زیادہ تحفظ فراہم کر دیتی ہیں۔

بعض اوقات بچے ہی اپنے آپ کو بلوغت کی زندگی کے لئے تیار کرنے پر رضامند نہیں ہوتے یونہی نو خیز صنعتوں کے تحفظ سے بھی بعض اوقات وسائل کا زیاں ہوتا ہے۔جیسے بعض بچے اپنے والدین سے بلوغت کے بعد بھی امداد او رتوجہ کے متمنی ہوتے ہیں ویسے ہی بعض صنعتیں بھی عیاری سے حکومت سے طویل عرصے تک مراعات لیتی رہتی ہیں۔

تاہم بے ڈھنگے خاندانوں کے وجود کا یہ مطلب نہیں کہ والدین بچے پالنا چھوڑ دیں۔ یونہی اگربعض صنعتیں حکومت کی اعانت و امداد کے باوجود اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہوتیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ صنعتوں کے تحفظ کی پالیسی غلط ہے۔مدافعتی پالیسیوں کو بہتر بنانا چاہیے نہ کہ انہیں ترک کر دینا چاہیے۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: