بھارت میں مساوات کی جنگ

دیوانرو مہادیو  (کنڈا زبان کے نامور بھارتی دانشور اور معروف ناول نگار ہیں۔ ان کا یہ آرٹیکل الجریرہ انگلش میں شائع ہوا۔ اس سے پہلے کنڈا زبان میں چھپ چکا ہے۔)

 

ان کی باتوں میں شعلے بھرے تھے۔ جب وہ بولتے تو جسم میں بجلی کوند جاتی تھی۔ پروفیسر ’’مرشوامی مادھیا ‘‘ بھارت کے اچھوت گھرانے میں پیدا ہوئے اور ایک بدھ پرست کے طور پر جہانی فانی سے کوچ کر گئے۔

پروفیسر صاحب کے ایک بہت پرانے انٹرویو کی باتیں مجھے آج بھی خوف زدہ کرتی ہیں۔ مرشوامی اپنے علاقے سے اگلے گاؤں میں جانے کے لئے اسٹاپ پر بیٹھے بس کا انتظار کر رہے تھے۔ اس گاؤں میں اونچی ذات والی لنگیات برادری رہتی تھی۔

بس اسٹاپ پر بیٹھے ایک بوڑھے نے اپنے بیٹے سے مرشوامی کی طرف اونگلی اٹھا کر پوچھا کہ ’’یہ کون ہے؟‘‘

بیٹھے نے جواب دیا، ’’بڑھائی مدھیا کا بیٹا، ایک استاد ہے۔‘‘ بوڑھے شخص نے بس یہ سنا اور آپے سے باہر ہو گیا۔ اس نے گندی گالیاں نکالی اور کہا کہ ’’اٹھو یہاں سے۔ ہمارے برابر بیٹھنے کی ہمت کیسے کی؟‘‘

مرشوامی نے اس واقعے کے تناظر میں انٹرویو کے دوران بتایا کہ ’’ہمیں صدیوں سے ایسے رہنے کی عادت ہو گئی ہے۔ صرف بابا صاحب امبیدکر کو پڑھ کر ہمیں اندازہ ہوا کہ یہ ذات پات کا نظام ایک بیماری ہے۔ جس سے چھٹکارا حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے۔‘‘

بھارت ’’زخموں‘‘ سے چور ہے لیکن کوئی بھی اس کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ذات پات، مذہب اور اچھوت پن کے زخم ناسور بن چکے ہیں اور اس کی وجہ سے ملک ذہنی بیماری کا شکار ہے۔

اس ملک میں پیدا ہونے والے بیشتر افراد ان بیماریوں سے لڑتے لڑتے بیمار ہو کر ہار چاتے ہیں۔

اچھوتوں کو گاؤں سے باہر نکال دیا جاتا ہے حالانکہ انہوں نے نہ تو کسی کا قتل کیا ہے اور نہ ہی کسی سے زیادتی کی ہے، انہوں نے تو کسی ذات کے خلاف منہ بھی نہیں کھولا۔ ان معصوم لوگوں کو تو عزت ملنی چاہیے لیکن پھر بھی ان کی بے عزتی کی جاتی ہے۔اگر معاشرے کو اس بیماری کا اندازہ ہوتا تو ان لوگوں کی حالت زار پر رحم کیا جاتا۔

اس بیماری سے واقف لوگ آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ آزادی صرف ان کی نہیں بلکہ یہ آزادی پورے معاشرے کو حقیقی آزادی کی جانب بڑھائے گی۔

زخموں کو کیسے بھرنا ہے؟ذات پات میں پھنسے افراد کو تہذیب کی مدد سے ٹھیک کرنا ہو گا، امتیاز کو تہذیب کا حصہ سمجھنے والوں کو سماجی طور پر سمجھانا ہو گا، صدیوں سے غربت میں پھنسے لوگوں کو معاشی انصاف فراہم کرنا ہو گا۔

ہم نے ذات پات کے نام پر کیا کھویا؟ ایک منٹ کے لئے پیسے اور سماجی برتری کو ایک طرف رکھ دیں۔ ایک خاص ذات میں پیدا ہونے کی وجہ سے ایک بچہ یا بچی پوری زندگی کے لئے اپنا آزادی، انصاف اور سچائی  کا پیمانہ کھو دیتے ہیں۔ صرف نچلی نہیں بلکہ اونچی ذات والے بھی۔

یہ بچے لاشعوری طور پر دوسری ذات کے لوگوں کی خوشی اور غم سے لاتعلق ہو جاتے ہیں۔ یہ بیماری ان کے شعور کو متاثر کرتی ہے۔ کیا یہ ہولناک نہیں؟ہم سب بیمار ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے۔

ذات پات سے نجات کے بعد ہی ہم انصاف اور آزادی حاصل کر سکتے ہیں، جو ہم سب کے اندر ہے۔ ہمیں یہ نئے بیج اگلے نسل میں بونا ہوں گے تاکہ ان میں یہ بے حسی پیدا نہ ہو۔

دلتوں نے ذات پات کے خلاف مہم شروع کی کیونکہ وہ سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ انہیں انتہائی محتاط انداز میں تحریک چلانا ہو گی تاکہ پوری دلت قوم کو اکٹھا کیا جا سکے۔یہ ایک انتہائی مشکل سفر ہے۔ قومی تشخص کی تحریک میں یہ تعین کرنا بہت ضروری ہے کہ آپ کے مقصد کیا ہے ؟ یہ مساوات اور امتیاز کے خلاف ہونا چاہیے۔

قومی تشخص کی تحریک عدم مساوت کے خلاف ایک دریا کی مانند ہے جس میں وہ تمام لوگ شامل ہوں گے جو اس سے امتیازی سلوک سے متاثر ہیں۔ اگر قومی تشخص کی اس تحریک کو خواتین، اقلیتیں، آدی واسی اور کسان، جو اپنے حقوق کے لئے لڑے رہے ہیں، اپنائیں گے نہیں تو پھر یہ تحریک ہمیں جوڑے گی نہیں بلکہ توڑ دے گی۔

ایسی تحریک کو لوگوں میں شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

بھارت میں آج یہ سب انتہائی اہم ہے۔ اگر آپ بھارت کی موجودہ رفتار پر غور کریں تو احساس ہو گا کہ آزادی کے سپاہی کا خواب اب لوگوں کے لئے قابل قبول نہیں۔

آپ مساوات کی بات کریں تو لوگ مذاق اڑاتے ہیں۔ ان لوگوں سے میں پوچھتا ہوں کہ وہ کیسا بھارت چاہتے ہیں؟ مکیش آمبانی کے گھر جیسا جس میں 600ملازمین، 3ہیلی پیڈ، 10لفٹ اور اردگرد لاکھوں جھونپڑیاں ہیں۔

کیا ہم ایسا بھارت چاہتے ہیں؟ اگر آپ کنارٹکا کے ضلع بلیری میں آئیں گے تو جن معدنیات پر عام کا حق تھا، انہیں کھود کر لوٹ لیا گیا اور اب عوام کے لئے صرف گرد، مٹی اور گندا پانی رہ گیا ہے۔

ہم کہاں جا رہے ہیں؟ پیسے کی یہ ہوس ختم ہونے والی نہیں ہے۔ سب کچھ خریدنے کے بعد بھی یہ ناچتی رہے گی۔

یہ ہوس منتخب نمائندوں اور ایوانوں کو بھی تباہ کر دے گی، کچھ لوگوں کے ہاتھ میں پیسا ہو گا تو وہ انتظامیہ، میڈیا اور عدلیہ کو بھی خرید لیں گے۔

ہمیں اپنی زمین، ہوا اور پانی کو اس ہوس سے آزاد کرانا ہو گا تاکہ سب کی فلاح کے لئے استعمال کیا جا سکے۔آج شہروں میں سانس لینے کی جگہ نہیں۔ گاؤں پر اتنا بوجھ ہے کہ وہ آگے نہیں بڑھ پا رہے۔ کسان خودکشیاں کر رہے ہیں۔

یہاں صرف مساوات کا خواب بو کر ہی زندہ رہا جا سکتا ہے۔ ہمیں امیر غریب میں فرق کم کرنا ہو گا۔ یہ خواب صرف اسکول سے ہی شروع ہو سکتا ہے جہاں اس ذات پات کو ختم کر کے ایک نئی نسل کی تعمیر کی جائے کیونکہ شاید ہم اب ٹھیک نہیں ہو سکتے۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: