ایک ریکارڈ ایسا ہے جو ہر اولمپکس میں ٹوٹتا ہے ، اولمپکس ولیج میں کنڈومز کی سپلائی کا ریکارڈ۔
ریو اولمپکس میں ساڑھے چار لاکھ کنڈومز اولمپکس ولیج میں فراہم کیے گئے ہیں ، لندن اولمپکس میں یہ تعداد ڈیڑھ لاکھ تھی ۔
تو کیا کھیل کے ساتھ پاکیزگی کا تصور ختم ہو گیا ہے ؟
ایک ایسا شہر جس میں دنیا بھر سے زندگی سے بھرپور ہزاروں نوجوان جمع ہوتے ہوں، وہ خوب ورزش کریں ، روزانہ پارٹیاں ہوں اور شراب عام مل جائے تو آپ کیا توقع کرتے ہیں ؟
امریکی سکیئر کیری شینبرگ کا کہنا ہے کہ اولمپکس ولیج کی کہانی پریوں کی داستان ہے جہاں کچھ بھی ممکن ہے ، نوے کی دہائی میں مقابلوں میں حصہ لینے والی اس خاتون کھلاڑی نے تو یہ دعویٰ بھی کیا کہ دو جرمن کھلاڑیوں نے اس سے تعلقات قائم کرنے کے لیے اپنے میڈلز تک کی پیش کش کر دی ۔
اولمپکس کے دوران جنسی سرگرمیوں میں امریکی سب سے بدنام ہیں ، دیگر ملکوں کے کھلاڑی امریکیوں کو سب سے زیادہ فلرٹ قرار دیتے ہیں ۔ امریکی فٹ بال سٹار ہوپ سولو نے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا کہ بیجنگ اولمپکس میں ایک دوسرے کھلاڑی نے اس کے کمرے میں ساری رات گزاری۔
کیا سب کھلاڑی ان سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں ؟ شاید ایسا نہیں ، ایک سابق اولمپئن کا کہنا ہے کہ سوئمرز ، جمناسٹ ، اتھلیٹس اور بیچ والی بال کے کھلاڑی جنسی سرگرمیوں میں سب سے آگے ہوتے ہیں ، جبکہ گھڑ دوڑ اور کشتی رانی میں شریک ہونے والے اس میں کم دلچسپی لیتے ہیں ۔
کھلاڑیوں کی یہ سرگرمیاں ، گیمز شروع ہونے سے پہلے ہی زور پکڑ لیتی ہیں کیونکہ تمام کھلاڑی اولمپکس کے باقاعدہ آغاز سے ایک ہفتہ پہلے ہی اولمپکس ولیج میں پہنچ چکے ہوتے ہیں ۔ گیمز کے اختتام کے بعد بھی یہ ختم نہیں ہوتیں ، سڈنی اولمپکس سے واپسی پر یونائیٹڈ ایئر لائنز کی ایک پرواز میں بد مست کھلاڑیوں نے اجتماعی طور پر جنسی عمل کیا ۔
1992 کے بارسلونا اولمپکس کو یاد کرتے ہوئے برطانوی ٹیبل ٹینس کھلاڑی میتھیوکا کہنا ہے کہ جب ہر طرف مختصر لباس میں مقابلے ہو رہے ہوں تو ان خوبصورت جسموں کو رد کرنا مشکل ہوتا ہے ۔
ہوپ سولو کہتی ہے کہ جنسی سرگرمیاں صرف کمروں میں نہیں ہو رہی ہوتیں ، یہ ہر جگہ ، جہاں موقع ملے کی بنیاد پر چل رہی ہوتی ہیں ۔
تو اس سب میں کوچز اور اولمپک حکام کیا کر رہے ہوتے ہیں ؟ وہ پابندیاں لگاتے ہیں ، رات کوسونے کی ڈیڈ لائن مقرر کرتے ہیں لیکن ان سب پر عمل کم ہی ہوتا ہے ۔
سڈنی گیمز کی یادیں تازہ کرتے ہوئے امریکی شوٹر جوش لوکاٹوش کا کہنا تھا کہ اس نے اتنی زیادہ خراب اخلاقی حالت کہیں نہیں دیکھی ، خواتین ریلے ریس کی ایک چار رکنی ٹیم نے اکھٹے ہی مرد اتھلیٹس کے ساتھ جنسی عمل کیا ۔ وہ پارٹی ختم ہونے سے پہلے ہی وہاں سے چلا گیا ۔