جشن آزادی!اک آدم زادی قید!

تحرير :امر سندهي

میں اپنے کمرے میں بیٹھا تھا کہ اچانک زور شور سے آواز گونج رہی تھی میں کھڑکی کے قریب گیا تو دیکھا لوگ بلند آواز میں نعرے لگا رہے تھے۔ سب قطار میں بڑے نظم و ضبط کے ساتھ جا رہے تھے۔ کچھ دیر تک انہیں میں بےرخی کی نظر سے دیکھتا رہا کہ دروازے سے آواز آئی اور میرا دھیان دروازے کی طرف چلا گیا۔ میں اب بھی وہاں کھڑکی کے قریب سے ریکھ رہا تھا کہ لوگ نعرے لگاتے لگاتے گزر گئے تھے۔  وہ میرے پاس آئی اور ہمیشہ کی طرح اسی انداز سے کہا فنا کیسے ہو؟

میں نے دھیمے لہجے میں جواب دیا، ٹھیک ہوں۔

وہ : آج کس سوچ میں گم ہے جناب؟

میں : کچھ نہیں بس یوں ہی باہر کا نظارہ دیکھ رہا تھا۔

وہ : اور مجھے پتا ہے کہ نظاروں کو نظرانداز کرنا تمہیں آتا بھی نہیں اور نا کرتے ہو۔

میں : کچھ نظارے نظرانداز کرنے کے لئے نہیں ہوتے ۔ہم جان بوجھ کر ان کے بارے میں نہیں سوچتے ۔بہت لوگ نہیں سوچتے کہ ان فضول چیزوں میں ان کا وقت برباد نا ہو مگر میں کون سا ابھی صدر ہوں جو بہت کام ہیں۔ فارغ ہی تو بیٹھا ہوں!

وہ : چل چھوڑ ان باتوں کو اور یہ بتا کہ آج تاریخ کونسی ہے؟

میں : حضور یہ تاریخ مجھے یاد ہی نہیں رہتی۔

وہ : اف….!!….. تبھی تو کہتی رہتی ہوں اکثر کہ باہر نکلا کر اور دیکھ دنیا میں کیا کیا ہو رہا ہے ۔ پاگل آج 14 آگست ہے۔ ہمارا جشن آزادی کا دن ہے۔

میں :ام م م م!

وہ : تو تم ابھی تک یہاں بیٹھے ہو چل باہر چلتے ہیں۔ اپنی پرانے اسکول میں بڑا پروگرام ہے۔  بہت مزا آئے گا چل چلتے ہیں۔

میں : نہیں تم جاؤ مجھے نہیں چلنا!!

وہ : یار جشن آزادی کے دن بھی تم ایسی۔۔

میں نے ہونٹوں پے ہاتھ رکھ دیا ، بہت پیاری لگ رہی ہو آج یار!!

وہ : شکریہ۔۔۔مگر اب چلیں۔۔

میں : تھوڑی دیر بیٹھ باتیں کرتے ہیں پھر چلے جانا

وہ : اوے مجنوں والی ادا چھوڑو۔ ایک پاکے فراد ہو۔  کم سے کم آج تو اپنے وطن کے بارے میں غور و فکرفرماؤ!

میں : غور و فکر ہی تو فرما رہا تھا۔  تمھارے آنے سے پہلے۔

وہ :اچھا۔ کیسے!!

میں : کہ ہم اپنے ملک کی ترقی کے لئے کر ہی کیا رہے ہیں؟ سال بہ سال گزر جاتا ہے اور ہم بس 14 آگست آیا تو جشن آزادی منانے کے لیے اتاولے ہیں؟ کون سی آزادی؟ کس کی آزادی؟ کس سے آزادی؟ ہم تو پیدا ہوئے تبھی سے قید ہیں؟ ہاں وہ ہمارے بزرگوں نے حاصل کی تھی۔  آزادی اپنی جفاکشی سے وہ منائیں۔  آزادی ہم کیسی اور کیوں منائیں؟ تمہاری اتنی عمر گزری ہے آج تک ایک اچھے پاک فرد ہونے کے لئے تم نے کیا کیا؟ اور تو اور آج جشن آزادی کے دن بھی بہت خوش باش دکھ رہی ہو۔  پروگرام دیکھیں گے اور نعرے لگائیں گے۔  بہت مزا آئے گا۔ یار سال کے 364 دن تو مزا کرتے رہتے ہیں۔  کم سے کم آج کے دن تو اپنی تاریخ پر غور فرمائیں۔  کچھ وطن کے لئے کرنے کا حوصلہ پیدا کریں۔ پھر 15 آگست  ہے اور وہی اپنا معمول۔ کتنے جاہل انسان یوں ہی عمر خرچ کر دیتے ہیں ۔ اور تمھیں آج یوم آزادی کی پڑی ہے۔

وہ : تو تم کونسا کارنامہ سرانجام دے چکے ہو۔  ہر روز فضول افسانے لکھتے رہتے ہو۔ مجھے سوچتے رہتے ہو۔ میں کم سے کم ایک نوکری تو کرتی ہوں اپنی گھر والوں کی کچھ تو سپورٹ کرتی ہوں۔

میں : ہاں فضول ہوں میں وقت ضائع کرتا ہوں مگر اوروں کی طرح عمر بھر اپنے ذاتی مفاد کے لئے نہیں جیتا ہوں۔ نا ایسا کروں گا۔ ایک دن تو آئے گا جب کچھ وطن کے لیے بھی کر پاؤں گا۔

وہ : تو اسی سمے دیکھیں گے ۔ فی الحال چھوڑو ان باتوں کو اور چلو۔

میں : کیوں؟ تم ہی چلی جاؤ نا۔ میں کیوں چلوں؟

وہ : تو پاگل ہے کیا یار ۔ میں اکیلی چلی جاؤں مگر وہ رمیز  کمینہ ایسے ہی چھیڑے گا ۔ تم چلو یار۔

میں : اور کہہ رہے ہو کہ آزادی ۔۔ تمھیں اتنی بھی آزادی نہیں کہ اکیلی کہیں جا سکو۔ سنو!اپنے ہی ملک میں بیٹھی ہو نا اور ہاں آج تو ہم لوگوں کا جشن آزادی کا دن ہے۔اور کچھ نہیں چاہتی پاک زمین پر۔بنت حوا آزادی چاہتی ہے۔ آزادی چاہتی ہے۔

اس کی نظریں تو جھکی تھی مگر مجھ سے مخاطب ہوکے اشک صاف کرکے بولی۔

فنا!ٹھیک کہتے ہو! آخر کیوں اور کب تک ہم حقیقی آزادی سے غافل رہیں گے۔ اور ہاں ہم کیسا یوم آزادی منائیں ۔جب کہ ہم آزاد ہی نہیں ہیں۔

میں نے اس کے اشک صاف کرکے کہا میرا دل لرزرا ہے نا رو!

اور وہ بے رخی والی مسکراہٹ چہرے پر لائی۔

میں : اور ہاں پاگل باہمت ہو تم ۔ ہم نعرے کیوں لگاتے رہیں؟ سنو!نعرے لگاؤ نہیں ۔نعروں میں گونجو

میں : چل چھوڑ ۔ چلتے ہیں یوم آزادی منانے

وہ : نہیں مجھے نہیں چلنا

میں : ارے اتنا غصہ نا کرو نا۔

وہ : کہا نا نہیں چلنا

یوم آزادی کا اسٹیکر اپنے گالوں سے نکال کر میرے گالوں پر لگاکر دروازے کی طرف چلی گئی اور چوکھٹ پر رک کر کہا ۔ میں پاکستان کی تقدیر بدلنے کی کوشش کروں گی۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: