امریکا کے شہرہ آفاق ایتھلیٹ مائیکل فیلپ کو دنیا کا عظیم ترین اولمپئین مانا جاتا ہے۔ اولمپک میں انہوں نے بدھ کے روز نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے 2 ہزار سال سے زائد پرانا ریکارڈ توڑ دیا اور ایک ہی اولمپکس میں چوتھا گولڈ میڈل اپنے نام کر لیا۔
امریکی تیراک نے 200 میٹر کے انفرادی مقابلے کے فائنل میں فتح حاصل کرکے اپنے کیریئر کا 22واں سونے کا تمغہ جیتا جبکہ یہ ریو میں ان کا چوتھا گولڈ میڈل ہے۔ اس فتح کے ساتھ ہی انہوں نے تاریخ کے سب سے بہترین ایتھلیٹ سمجھے جانے والے قدیم یونان کے لیونیڈز آف رہوڈز کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
وہ اس کامیابی کے ساتھ ہی لگاتار چار اولمپک گیمز میں ایک ہی مقابلہ تواتر سے جیتنے والے تاریخ کے پہلے تیراک اور کھلاڑی بن گئے۔ اس عظیم کارنامے کے بعد انہوں نے اعلان کیا تھا کہ آج کی ریس ان کی آخری ریس ہوگی لیکن اپنی اولمپکس کی آخری ریس وہ ہار گئے۔
یہ ریس انہوں نے اپنے ایک مداح سے ہاری۔ سنگاپور کے 21 سالہ جوزف اسکولنگ نے 50.3سیکنڈ میں فاصلہ طے کرکے عالمی ریکارڈ بنایا۔ تاہم اس عالمی ریکارڈ سے دلچپ بات یہ ہے کہ دوسرے نمبر پر فلپ سمیت چار کھلاڑی رہے جنہوں نے فاصلہ 51.4سیکنڈ میں طے کیا۔
فلپ نے کہا کہ ان کا تاریخی کیئرئیر ختم ہو گیا ہے۔ انہیں فخر ہے کہ نوجوان اب ان کی جگہ لینے کو تیار ہیں۔
سنگاپور کے اسکولنگ کو جیتنے کے بعد یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ اپنے ملک کے لئے اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتنے والے پہلے کھلاڑی بن گئے ہیں۔ اسکولنگ پیدا تو سنگاپور میں ہوئے لیکن انہوں نے تعلیم امریکی ریاست ٹیکساس میں حاصل کی۔
یہاں یہ بات انتہائی دلچسپ ہے کہ اسکولنگ شاید فلپ کے سب سے بڑے مداح تھے۔ ایک تربیتی سیشن کے دوران ان کی پہلی بار 2008 میں ملاقات ہوئی جس کی تصویر دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ایک بچہ اپنی سب سے بڑی خواہش کے ساتھ تھا ۔
آج کی تصویر دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک شاگرد نے استاد کو ہرا دیا اور دیکھیں کہ یہ دونوں کتنے خوش ہیں لیکن یقیناً میڈل حاصل کرتے ہوئے فلپ کا چہرہ مطمئن تھا کیونکہ انہوں نے اس میڈل کی ڈور اپنے شاگرد کے حوالے ہی کی ہے۔