تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد

شبنم اسحاق

منٹو کو اپنے دور کا آئینہ گر کہا جاتا ہے۔ایسا آئینہ جو یکھنے والے کے ظاہروباطن کواٹھنی کی طرح اچھال کر بیچ چوراہے نیلام کر چھوڑے۔اوراس نیلامی میں خریدار دور دور تک نظر نہ آئے۔آئے بھی کیوں، غلاظت کے ڈھیر کو مول لینے کا حوصلہ کس میں؟ اگرچہ آج تو غلاظت کے مول دو گنے ہو چلے۔ دیس کی غلاظت بدیس بک رہی ہے۔اور ہم بیچ رہے ہیں،فائدہ جو ہے۔

منٹو نے متحدہ اور آزاد دونوں طرح کے پاکستان میں زندگی بسر کی۔ یہ تاریخ کی عظیم ترین انسانی ہجرت تھی۔نئے دیس کے تیار ہونے میں ایک لاکھوں تاریک راہوں میں ہی لقمہ اجل بن گئے۔بٹوارا صرف جغرافیائی حدودکاہی نہیں بلکہ صدیوں پر محیط پرانے دوستانے اور بھائی چارے کا بھی ہوا۔منٹو اس وقت بھی بمبئی میں رہائش پذیر تھے۔

ایک ادیب،کہانی کار، اور صحافی کیلئے اس طرح کی خونی ہجرت دل و دماغ کو دہلانے کیلئے کافی تھی۔اپنی زندگی کے 12سال منٹو نے بمبئی میں گذارے جس دوران انہو ں نے فلموں کیلئے لکھا،شادی کی،اپنا بیٹا گنوایا۔اس نے اس شہر کی رنگینیاں فلمی ستاروں کی چکا چوند سے اپنے افسانوں میں افسانوی رنگ بھرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ان موضوعات میں ہاتھ ڈالا جنہیں شجر ممنوعہ سمجھ کر اکثر ادیب زیر قلم لانے سے ہچکچاتے تھے۔

جنسی خواہش اس کی کہانیوں کا ہر دلعزیز مو ضوع رہا۔طوائف اور دلدل پسندیدہ کردار۔اس نے ان کرداروں کو بحیثیت انسان ہی پرکھا بطورصحافی منٹو نے اسلامی بنیاد پرستی کے بیج کو تناور درخت بننے کی پیشن گوئی کی تھی۔

منٹو نے عظمت اور جھو ٹے تقدس کے غلاف میں ملفوف معاشرے کو نوزائیدہ بچے کی مانند معاشرے کی گود میں ڈال دیا۔

منٹو کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کہانی ایک ہی نشت میں پوری کرتے تھے۔ان کی کہانیوں میں کہیں عورت مرد کا ریپ کرتی ہے تو کہیں مرد ہ عورت کے جسم سے کھیلنے والا اپنی ہی گھر والی کے ہاتھوں دوران مباشرت اعتراف جرم کرنے پر پٹتا ہے۔اسی طرح کے کئی واقعات اس کے قاری کو چونکاتے ہیں۔

منٹو بٹوارے کے خلاف تھااسی لئے اس نے نئے بنے پاکستان میں جانے سے انکار کیا۔کہا جاتا ہے کہ بمبئی میں اپنے اخبار کے دفتر میں ایک روز اپنے ہندو دوستوں کے ساتھ بے تکلفی کی محفل عروج پر تھی تو کسی نے کہا کہ اگر منٹو ہمارا یار نہ ہوتا تو یہ بھی مارا جاتا۔اس سے اگلے روزمنٹو نے پاکستان کی طرف رخت سفر باندھ لیا۔

اس سب کے بعد ہی اس نے ٹوبہ ٹیک سنگھ جیسا شاہکار تراشہ۔منٹو لکھتا ہے

“یہ نہ کہو کہ100000ہندو اور 100000مسلمان مارے گئے بلکہ کہو کہ 200000انسان مارے گئے”۔

منٹو لکھتا تھا اور بے خوف و خطر لکھتا تھا،اسکی کہانیاں اسکا آنکھوں دیکھا دکھ روتی ہیں۔اور جب بو کالی شلوار، کھول د و جیسی تحریریں معاشرے کو گریبان سے پکڑتی ہیں تو فحاشی کے مقدمات دائر ہوتے ہیں ایک بار نہیں دو بار نہیں 6,6بار جی ہاں 6بار منٹو کو عدالتوں میں گھسیٹا کیا3بار 1947سے قبل اور 3بار 1947کے بعد۔منٹو لکھتا ہے:

“اگر آپ کو میری کہانیاں فحش لگتی ہیں تو جس معاشرے میں آپ رہ رہے ہیں وہ گندہ ہے۔اپنی کہانیوں کے زریعے میں صرف سچ بے نقاب کرتا ہوں”۔

جہاں یہ کہانیاں منٹو کے معاشرتی فہم کی منہ بولتی تصویریں ہیں وہیں چچا کے نام خطوط اسکی سیاسی بصیرت کو بھی ہم پرآشکار کرتے ہیں۔منٹو جیسا ہمہ پہلو شخص جس دور کی پیداوار تھااسے کئی ایک دشواریوں، بدمذگیوں،کورٹ کچہری کی مصیبتوں کا صامنارہا۔پاک ٹی ہاؤس میں عظیم لوگوں کے درمیان بیٹھا بھی وہ یگانہ تھا۔تبھی تو ترقی پسندمصنفین کو بھی وارہ نہیں کھاتا تھا۔کثرت شراب نوش اسکی موت کا سبب بتائی جاتی ہے۔بظاہر سبب۔

منٹو1955میں رخصت ہوا۔منٹو کادور 1912سے شروع ہو کرجلد ہی 1955پر ختم ہوا1927-2007 قراۃالعین طویل علالت کے بعدرخصت ہوئیں۔قراۃالعین بھی منٹو کی طرح پاٹیشن کے بعدپاکستان آگئیں تھیں۔مگر جلد ہی انڈیا پلٹ کر وہاں کی شہریت دوبارہ شہرت حاصل کی۔انکے اس فیصلے کے محرکات کا آج تک اصل سبب نظروں سے اوجھل ہی رہاہے اور قراۃالعین نے بھی اس پر خاموشی اختیار کی۔انکی شہرہ آفاق تصنیف “آگ کا دریا”جو پاکستان میں رہتے ہوئے انہوں نے تحریر کی پذیرائی پانے کے ساتھ ساتھ Contervesyکا شکار بھی ہوئی۔اپنی سوانحی عمری”کارجہاں درازہے (689-92) میں لکھی ہیں۔

No it could be dangerous you sghould be aware of sinister compaigns.

But what lies behind all this sinister compaign.

قراۃالعین کے کوچ کر جانے کے بعد کئی افواہیں بھی گردش میں رہیں۔ان مہاں لکھاریوں نے پاکستان سے قبل اور بعد کے حالات کو دیکھا بھی سہا بھی اور اپنے اپنے انداز میں ادب کا حصہ بھی بنایااگر یہ لوگ آج کے دور میں ہوتے تو کیا ایسے ہی بے باک اور منہ زور ہوتے اور اگر ہوتے تو کیا معاشرہ ان سے دو چار مقدمات اور 10,12پیشیوں اور ایک آدھے اختلامی کالم کے بعد انہیں بخش دیتا؟

شاید آج منٹو ہوتا تو اسے اپنی موت کا الزام شراب کے سر نہ منڈھنا پڑتا،قراۃالعین کی دوسرے دیس کی شہریت اختیار کرنے کی خواہش بس خواہش ہی رہ جاتی شکیب جلالی جسے لوگوں کو سر پٹری پر رکھنے کی زحمت نہ کرنا پڑتی۔

اب تو “Sinister Camaign”چلانے کی بھی ضرورت نہیں۔کہ اب Obsentyکوپنپنے سے پہلے ہی ٹارگٹِ کل کر دیا جاتا ہے۔منٹولکھتاہے:

ہندوستان آزاد ہو گیا تھا۔پاکستان عالم وجود میں آتے ہی آزاد ہو گیا تھالیکن انسان دونو ں مملکتوں میں غلام ہی رہے۔

تعصب کا غلام۔۔۔۔۔۔۔

مذہبی جنون کا غلام۔۔۔۔۔۔

حیوانیت اور بر بریت کا غلام۔۔۔۔۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: