لاہور اور لاہور کے بچے

زاہد حسن

وطنِ عزیز میں لفظی اعداد و شمار گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں۔ کئی بار یہ گنتی صرف اعداد تک محدود نہیں رہتی بلکہ اعداد آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں اور وہ قدر اور شئے آگے بڑھ کر ہماری نظروں کو تکلیف دہ خیرگی دیتی رہتی ہے اور کتنی بار اعداد کا کھیل منفی اور مثبت اقدار میں بدل جاتا ہے، جیسے آج کل لاہور میں ہو رہے بچوں کے اغواء کی وارداتیں۔ جن والدین کے بچے اغواء ہو چکے ہیں وہ خوف کی اس وادی سے ایک اگلی وادی میں قدم رکھ چکے ہیں جن کے پیچھے پیچھے ان چہکتے مہکتے بچوں کے والدین جو اس صورت حال میں بھی کھیلنا چاہتے ہیں، اپنے گھر کی دہلیز سے باہر، گلی میں یا گھر سے نزدیک کسی پارک میں، اُن کا ڈر، اُن کی رگوں میں ایک خاص طرح کی اکسائٹمنٹ کو زندہ رکھے ہوئے اُن کے اندر۔

لاہور، اور لاہور کے بچے ایک بار پہلے بھی ایسی ہی واردات میں سے گزر چکے ہیں۔ ہو کیا رہا تھا اُن کے ساتھ؟ یہ بات ابھی باہر نکل ہی رہی تھی کہ انہیں ذبح کر کے ان کے اعضاء نکالے جا رہے تھے۔ اس ہی دوران اُن بچوں کو اغواء کر کے اُن کے ساتھ کاروبار کرنے والے مجرم کو تھانے کی اونچی بلڈنگ سے گرا کر اپنے آپ کو مار دینے کا موقع دیا گیا۔ کتنے ہی دنوں تک گرفتار رہنے کے باوجود ریاستی مشینری اس کیس کا تجزیہ کرنے اور ان لوگوں تک ثبوت پہنچانے میں پوری طرح ناکام رہی تھی جن کے بچے اس معیشت کی بھینٹ چڑھ گئے تھے۔

یہ معیشت آج کل بھی چل رہی ہے۔ روز ایک دو بچوں کے اغواء کی خبر آ رہی ہے، احتجاج ہو رہا ہے، بولنے والے بول رہے ہیں، لکھنے والے لکھ رہے ہیں۔ تحفّظ امن، سلامتی کے نام پر بنائے گئے ادارے موجود ہیں، اُن کے پاس فنڈز بھی موجود ہیں، ان اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کو بھی مہینہ وار تنخواہیں مل رہی ہیں، ان بچوں کے والدین کے ووٹوں سے چُنی ہوئی حکومت بھی موجود ہے، لیکن وہ اپنا دفاع کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ بچوں کے اغواء کے جیسے کتنے ہی اور جرائم کا دفاع، جو اُن کے نامہ اعمال میں درج ہیں۔ کتنے ہی لاؤڈ اسپیکر بند ہیں، جو بچوں کے اغواء سے بہت کم صدمہ دینے والے مسائل پر باہر نکل آئیں گے اور ہمارے کانوں میں کائیں کائیں کرنے لگ جائیں گے۔ سُنا تو یہ ہے کہ چائلڈ پروٹیکشن بیورو اور کتنی ہی این جی اوز کو بچوں کے تحفظ اور آگہی کے حوالے سے فنڈز ملتے ہیں لیکن؟

لیکن سب سے بڑھ کر اہم سوال یہ ہے کہ ریاست اس ایشو پر چُپ رہ کر اپنے آپ کو شریکِ جرم، کس لیے ثابت کرنا چاہتی ہے۔ حکومتی اداروں کی ساکھ پر تو اس حوالے سے بہت زیادہ سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ اس حوالے سے صرف یہی کافی نہیں ہو گا کہ آنے والے دنوں میں نہ صرف یہ کہ کوئی بچّہ اغواء ہو گا جو بچے اغواء ہو چکے ہیں، کہاں گئے؟ کِن لوگوں نے اغواء کئے؟ اُن بچّوں کے ساتھ کیا گزری؟ ثابت سالم جسمانی حوالے سے اُن کی واپسی ضروری ہے۔ یہ بہرحال حقیقت ہے کہ وہ اس صدمے میں سے زندگی بھر نہیں نکل سکیں گے۔

والدین کی انمول وراثت ہوتی ہے اُن کی اولاد۔ کسی بھی صورت میں ان کی مال جائیداد، کسی بھی انسان یا ادارے کی جانب سے لوٹے جانے پر وہ چُپ رہ سکتے ہیں۔ لیکن اُن سے اولاد کے چھین لیے جانے پر اُن سے صبر نہیں ہو گا۔ اس بات کا احساس ہر فرد اور ادارے کو کرنے کی ضرورت ہے۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: