طیب اردوان ناکام بغاوت کے بعد اپنے پہلے بیرونی دورے پر روس پہنچے ہیں جہاں اور صدر پیوٹن سے ملاقات کریں گے۔ اس دورے کو ترکی اور اردوان کے لئے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم یہ دورہ یورپ کے لئے بھی اہم ہے کیونکہ اردوان کئی بار شکوہ کر چکے ہیں کہ بغاوت کے بعد یورپی دوستوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور ملنے تک نہیں آئے۔
ادھر روس کی یورپ میں تنہائی کو مدنظر رکھتے ہوئے ترک صدر سے بہتر تعلقات انتہائی اہم ہیں۔ تاہم شام میں روسی طیارے پر حملے کے بعد روس نے ترکی پر پابندیاں عائد کر دی تھیں لیکن پھر اردوان کی معافی کے بعد تمام پابندیاں ختم کر دی گئیں۔
دونوں ممالک میں کشیدگی کے دوران بھی روسی صدر نے کھل کر اردوان کی بغاوت کے دوران حمایت کی اوریہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ روسی انٹیلی جنس نے بغاوت ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
دورے کے دوران ابتدائی طور پر تو صرف دوطرفہ مذاکرات طے تھے لیکن اب اس دورے میں کئی تجارتی معاہدے بھی شامل کر لئے گئے ہیں جو روس اور ترکی کے تعلقات کے نئے دور کا اشارہ دے رہے ہیں۔
ادھر یورپ میں اس دورے کے حوالے سے کافی تشویش پائی جاتی اور جرمنی کا کہنا ہے کہ وہ تمام معاملات کا بغور جائزہ لے رہا ہے۔ بریگسٹ کے بعد اگر ترکی بھی یورپ کے ہاتھ سے نکلا تو یورپی یونین کے لئے یہ بہت بڑا دھچکا ہو گا۔