ٹام حسین، (الجزیرہ)
اس آرٹیکل کو دنیا ٹو ڈے نے ترجمہ کیا ہے
دہشت گردوں نے کوئٹہ میں حملہ کر کے ہم سب کو یاد کرایا ہے کہ وہ جب آپریشن کی صورت میں بھاگ تو جائیں گے لیکن جیسے ہی موقع ملے گا وہ واپس آئیں گے اور کسی بھی کمزور جگہ کو نشانہ بنا کر ہمیں اپنی موجودگی کا احساس دلائیں گے۔
فاٹا سے فوجی آپریشن کے بعد بے دخل ہونے والے طالبان نے یہ باور کرا دیا ہے کہ وہ ناصرف طاقتور ہیں بلکہ ان کے پاس لڑائی کی طاقت اور صلاحیت بھی ہے۔
اس آپریشن کے بعد یہ طالبان اب افغانستان کے مشرقی صوبوں میں موجود ہیں۔ تاہم ان علاقوں میں افغان حکومت یا طالبان، دونوں اتنے طاقتور نہیں کہ پاکستان پر حملہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کر سکیں۔
ان دہشت گردوں نے داعش مختلف تنظیموں کے ساتھ تکنیکی الحاق کر لیا ہے، ان تنظیموں میں داعش کے مقامی گروپ بھی شامل ہیں۔ان لوگوں نے مل کر افغانستان کے مشرقی صوبوں میں مضبوط پناہ گاہیں بنا لیں ہیں جہاں سے وہ پاکستان کو ہدف بنا رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ افغانستان طالبان سے لڑنے میں مصروف ہے، افغانستان کو ہرا کر کچھ نہیں ملے گا، اس وجہ سے پاکستان پر حملے کرو۔ یوں یہ افغان طالبان کی بالواسطہ مدد سے اپنا ہدف حاصل کر رہے ہیں۔
اس سال پاکستانی طالبان نے بلوچستان اور دوسرے دور دراز علاقوں میں حملے کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان کی مسئلہ ابھی ختم نہیں ہوا اور پاکستان کی حکومت کا سردرد ابھی کئی برسوں برقرار رہے گا۔
بلوچستان میں آزادی کی تحریک پچھلے کئی سالوں سے جاری ہے جس کو کچھ قوم پرست گروہ چلا رہے ہیں۔ حالانکہ بلوچوں میں وفاق کے خلاف بہت زیادہ نفرت ہے تاہم اس کے باوجود علیحدگی کی تحریک دم توڑ رہی ہے۔
وفاق کا خیال ہے کہ گوادر اور سی پیک منصوبے کی وجہ سے بلوچستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے نتیجے میں بلوچوں کی نفرت بتدریج کم ہو جائے گی۔
46ارب ڈالر کے اس منصوبے کی وجہ سے بلوچستان اور ایران کی سرحد پر بہت بڑی سرمایہ کاری ہونے والی ہے کیونکہ چین اس علاقے سے تیل اور گیس کی پائپ لائن بچھا کر اپنے ملک میں درآمد کرنا چاہتا ہے۔
پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ پاکستان کی تاریخ میں انتہائی اہم ہے کیونکہ اس کی مدد سے پاکستان ملک میں سڑکوں کا جال بچھانے اور توانائی کا بحران ختم کرنے کے قابل ہو سکے گا۔
اگر یہ سرمایہ کاری ایسے ہی جاری رہی تو پاکستان اس کے نتیجے میں دوگنا فائدہ اٹھانے کے قابل ہو جائے گا حالانکہ باقی دنیا اس سے تین گنا فائدہ اٹھاتی ہے۔ تاہم سیکیورٹی حالات کی وجہ سے یہ فائدہ کم ہے ۔ اگر یہ حملے یونہی جاری رہے تو شاید پاکستان اس کا فائدہ نہ اٹھا سکے اور پھر اس کا نقصان ہو بلکہ ایشیا میں سب سے سست معیشت بن جائے گا۔
جب اتنا کچھ داؤ پر لگا ہو تا طالبان اور داعش کا بلوچستان پر حملہ کرنا فطری عمل ہے۔ ہر حملہ پاکستان اور چین کو سرمائے کی صورت میں بہت بڑا نقصان پہنچا رہا ہے۔ چین جلد از جلد بحیرہ عرب تک پہنچانا چاہتا ہے لیکن یہ دہشت گرد اسے پہنچنے نہیں دے رہے۔
چین کو داعش سے بھی خطرہ محسوس ہو رہا ہے کیونکہ شنکیانگ میں اوغر دہشت گرد اس سے متاثر ہو کر مزید خطرناک حملے کر رہے ہیں۔ پاکستان سے سرحد ملنے کےباعث چین کے لئے خطرات بڑھ رہے ہیں۔
پچھلے ہفتے چین نے اپنے خطرات کے پیش نظر افغانستان، پاکستان اور تاجکستان کے ساتھ مشترکہ انٹیلی جنس شیئرنگ نیٹ ورک بنایا ہے۔
ایران بھی دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔ بلوچستان سے شیعہ زائرین کی بسوں کو دہشت گرد کئی سالوں سے نشانہ بنا رہے ہیں۔ شیعہ مسلمانوں کی ٹارگٹ کلنگ بھی بلوچستان میں معمول بن گئی ہے۔ یوں یہ دہشت گرد ایران کی سرحد پر بھی بمباری کر دیتے ہیں جس کے جواب میں پاکستان کی طرف راکٹ فائر ہوتے ہیں اور دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھتی ہے۔
اب ان دہشت گردوں نے داعش کا لبادہ اوڑھ لیا ہے اور بلوچستان میں داعش کو منظم بنانے کے لئے مختلف مقامات پر سیلپر سیل بھی قائم کر دئیے گئے ہیں۔
بے شک یہ دہشت گرد تنظیم بلوچستان سے ایران پر حملے کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جس کی وجہ سے تہران نے پاکستان سے رابطہ کیا اور ایک مشترکہ حکمت عملی بنانے کی تجویز بھی دی۔
تاہم پاکستان داعش کی موجودگی کو قبول کرنے کو تیار نہیں حالانکہ 2014میں نیوی کے جہاز پر حملے کرنے والوں کی آن لائن تربیت سے ان کی بھرتی تک تمام کام داعش نے سرانجام دیئے اور اس سب کے ثبوت بھی بعد میں مل گئے۔
اس کے برعکس پاکستان اپنا تمام تر غصہ صرف یہ کہہ کر نکال دیتا ہے کہ درحقیقت اس سب کے پیچھے صرف بھارت ہے۔
تاہم یہ بات ناقابل اعتماد ہے۔ پاکستانی پراکسی جنگ کے آلے ایک عرصے تک بھارت سے نبردآزما رہے، ایسے میں اب ان کا بھارت کے لئے کام کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
پاکستان حکومت جو مرضی کہہ لیکن یہ بات صاف ہے کہ موجود تمام دہشت گردوں نے مسئلہ کشمیر سے ہی اپنی تربیت شروع کی اور آج بھی وہ بھارت کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں۔
ایسا غلط پراپیگنڈا صرف دہشت گردوں کے لئے مزید جگہ بنانے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرتا۔
جب بھی ایسا حملہ ہوتا ہے تو لوگوں کا ریاست اور معیشت سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ لوگ حکومت کے انسداد دہشت گردی کے اقدامات پر سوال اٹھاتے ہیں۔اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت اور فوج پاکستانیوں سے سچ بولے کہ دہشت گردی کے خطرے کو صرف کم کیا گیا ہے، یہ ختم نہیں ہوا۔