1980 میں امریکی صدر جمی کارٹر کے قومی سلامتی کے مشیر برزنسکی کو رات گئے ٹیلی فون کر کے جگایا گیا ۔ برزنسکی کو بتایا گیا کہ فوج کے وارننگ سسٹمز پر ایٹمی حملے کے سگنلز آ رہے ہیں ۔ برزنسکی نے فون کرنے والے فوجی افسر کو مزید تصدیق اور معلومات حاصل کرنے کا کہا ۔ کچھ دیر بعد دوسری ٹیلی فون کال میں بتایا گیا کہ نہ صرف آبدوزوں بلکہ زمین سے بھی ہزاروں میزائل امریکا کی طرف فائر کیے گئے ہیں۔ برزنسکی جمی کارٹر کو فون کرنے ہی والے تھے کہ فوج کی جانب سے پھر کال آ گئی جس میں قومی سلامتی کے مشیر کو بتایا گیا کہ یہ سب ایک غلطی کی وجہ سے ہوا ، ایک کمپیوٹر نے ایٹمی حملے کا غلط الارم بجا دیا تھا ۔
اس واقعے نے ہمیشہ کے لیے ایک سوال امریکی صدور کے سامنے رکھ دیا ۔ وارننگ سسٹم کبھی بھی غلطی کر سکتے ہیں ، پھر اس موقع پر کیا کیا جائے ؟ کیا امریکی صدر وارننگ سسٹم پر اعتبار کر کے فوری جوابی ایٹمی حملے کا حکم دے دے یا امریکی سرزمین پر پہلے ایٹم بم گرنے کا انتظار کرے اور پھر جوابی حملہ کیا جائے۔
امریکی صدارت کے لیے ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازع بیانات نے اس اہم بحث کو پھر چھیڑ دیا ہے ۔ کیا امریکی صدر کو ایٹمی حملے کا فیصلہ کرنے کا حتمی اختیار ہے ؟ کیا امریکا میں کوئی ایسا ادارہ یا شخص ہے جو صدر کو ایٹمی جنگ کرنے سے روک سکے؟۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر امریکا پر ایٹمی حملہ کا جواب دینا ہو یا اگر امریکا خود پہلے ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کرنا چاہے تو صرف امریکی صدر ہی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اس کا حکم دے ۔ ایٹمی حملے کی صورت میں صرف چند منٹوں کی مہلت ملے گی اس کا جواب دینے کے لیے ، اسی لیے کانگریس نے ایٹمی جنگ کا اعلان کرنے کا اپنا اختیار امریکی صدر کو سونپ رکھا ہے ۔ اس اختیار کا سب سے پہلے اور اب تک واحد استعمال صدر ٹرومین نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے خلاف کیا ۔
فلموں میں تو دکھایا جاتا ہے کہ امریکی صدر کی انگلی ایٹمی ہتھیار چلانے کے بٹن پر ہوتی ہے ، لیکن اصل میں ایسا نہیں ۔ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا عمل خاصہ پیچیدہ ہے جس میں اس بات کا بھی مکمل خیال رکھا گیا ہے کہ امریکی فوج اس بات کی تصدیق کر سکے کہ یہ حکم واقعی صدر نے دیا ہے ۔
ایک کالا بریف کیس ہمیشہ صدر کے ساتھ رہتا ہے ۔ اس بریف کیس میں جنگی پلان ، تصدیق کے کوڈذ اور فوج سے کمیونیکیشن کے الات ہوتے ہیں تاکہ کسی بھی ایمرجنسی میں صدر جہاں بھی ہو حملے کا حکم دے سکے ۔
اہم سوال یہ ہے کہ امریکی صدر کو اس کے غلط استعمال سے کیسے روکا جا سکتا ہے یا کسی غلط فہمی کی صورت میں تصدیق کا عمل کیسے اور کتنی دیر میں پورا ہو سکتا ہے؟ قانونی طور پر تو ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں حتمی فیصلہ صدر نے ہی کرنا ہوتا ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ عملی طور پر حکام اس عمل کو آہستہ یا حتیٰ کہ نظر انداز بھی کر سکتے ہیں ۔
امریکی تاریخ میں دو بار ایسا ہو چکا ہے ، اور دونوں بار صدر نکسن کی حکومت میں ہی ایسا ہوا ۔ اکتوبر 1969 میں نکسن نے اپنے وزیر دفاع میلون لائرڈ کو حکم دیا کہ امریکی ایٹمی فورسز کو ہائی الرٹ کر دیا جائے۔ نکسن سویت یونین کو ڈرانا چاہتا تھا کہ امریکا شمالی ویت نام میں ایٹمی ہتھیار بھی استعمال کر سکتا ہے ۔ وزیر دفاع نے مشقوں کا بہانہ کر کے صدر کو ٹالنے کی کوشش کی لیکن نکسن اپنی ضد پر قائم رہا ۔ ” جائنٹ لانس ” نامی اس آپریش کے دوران تھرمو نیوکلیئر ہتھیار لے جانے والا ایک بی 52 طیارہ حادثے کا شکار ہوتے ہوتے بچا۔
1974 میں ، جب واٹر گیٹ سکینڈل سامنے آ چکا تھا ، نکسن سخت پریشان تھا ، اور اس نے کثرت سے شراب نوشی شروع کر دی تھی ۔ صدر کے وزیروں اور مشیروں کا خیال تھا کہ نکسن جذباتی طور پر غیر متوازن ہو چکا ہے ۔ وزیر دفاع جیمز شیلسنگر نے فوج کو واضح ہدایات جاری کر دیں کہ صدر کی طرف سے کسی بھی ایمرجنسی حکم خصوصی طور پر ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے حکم سے وزیر دفاع یا وزیر خارجہ کسنجر کو فوری مطلع کیا جائے ۔
حالیہ امریکی انتخابات میں ایٹمی ہتھیاروں پر صدر کا کنٹرول ایک بات پھر زیر بحث آ رہا ہے ۔ ڈیموکریٹ پارٹی کی امیدوار ہلری کلنٹن نے پارٹی کنونشن میں واضح طور پر کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایسا امیدوار نہیں کہ بطور صدر اس پر ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں اعتماد کیا جا سکے ۔ ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ بھی اپنے انٹرویوز میں ایٹمی ہتھیاروں پر بات کر چکے ہیں ۔ تاہم ٹرمپ نے اس بات کا واضح جواب دینے سے گریز کیا کہ وہ کن حالات میں ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کریں گے یا وہ مخالف فریق سے پہلے ان کا استعمال کریں گے یا نہیں ۔
بشکریہ نیویارک ٹائمز