ذلت سے نجات کا کوئی راستہ محنت کشوں کے پاس نہیں ہے!

نیلم

یہ لانگ مارچ، دھرنے، جلسے،بڑھکیں اور بہتان دراصل دولت کی بندر بانٹ پر ایک ہی حکمران ٹولے کے مختلف دھڑوں کی آپسی لڑائی کا اظہار ہیں جو سکڑتی ہوئی معیشت میں شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔

پاکستان کے حکمران طبقے اور ریاست کو شاید ان تماشوں کی ضرورت بھی ہے۔ اگر دھرنوں کا ناٹک نہ رچایا جائے، پارلیمنٹ میں بے مقصد بحثیں نہ ہوں، جوڈیشل ایکٹوزم کی پھلجڑیاں نہ چھوڑی جائیں اور سب سے بڑھ کر میڈیا ان بیہودہ تماشوں کی یلغار کے ذریعے سماجی شعور کو مسلسل مسخ نہ کرے تو ذلت، اذیت اور محرومی کے خلاف عوام کے دل و دماغ میں پکنے والا لاوا پھٹ بھی سکتا ہے۔

انقلاب نہ عمران خان لا سکتے ہیں  اور نہ ہی طاہرالقادری ، شریف برادران یا بلاول بھٹو ۔اس ملک میں انقلاب وہی لائے گا جس کا تعلق لوئر مڈل کلاس سے ہو گا ۔ رائے ونڈ، بنی گالہ، بلاول ہاؤس جیسے پرتعیش محلات میں رہنے والے کیسے انقلاب لائیں گے ۔ یہ لیڈر لگژری گاڑیوں اور بلٹ پروف کنٹینروں میں بیٹھ کر کایا پلٹ کرنا چاہتے ہیں؟

neelum

فوج سے بھی ایسی کوئی توقع رکھنا غلط ہو گا کہ وہ کسی بھی انقلاب کو سپورٹ فراہم کرے گی کیونکہ فوجی جرنیل محب وطن ضرور ہیں لیکن ’’سٹیٹس کو ‘‘ کے سب سے بڑے محافظ بھی یہی ہیں اور پھر سب سے بڑھ کر لسانی، جغرافیائی اور مسلکی اعتبار سے تقسیم در تقسیم معاشرے میں ، جہاں عدم برداشت کے رویے پروان چڑھ چکے ہوں، انتشار اور انارکی تو پھیل سکتی ہے، انقلاب کا آنا نہایت مشکل ہے ۔

اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ جو ہے، یہ بھی غنیمت ہے ۔وگرنہ اس سے بھی مشکل صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔یوں تو ہر جمہوری پارٹی کو لانگ مارچ اور جلسے جلوس کا حق ہے، تحریک انصاف بھی ضرور اپنے اس جمہوری حق کا استعمال کرے۔ تاہم فوری طور پر کوئی بڑی تبدیلی آنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

تمام جلسے جلسوں کے باوجود فی الحال مجھے پاکستان میں کسی بڑی تبدیلی کے آثار نظر نہیں آتے۔ ڈرائنگ روم سیاست دانوں کے پیچھے لوگ جانیں نہیں دے سکتے ۔ اگر کسی کو شک ہے تو کچھ دن انتظار کر کے دیکھ لیں۔ اتنا شور ہے کہ کچھ سنائی نہیں دیتا، اتنی حرکت ہے لیکن معاشرہ ساکت۔ سکوت میں بھی وقت رکتا نہیں، چلتا رہتا ہے، تغیر غیر محسوس انداز میں جاری رہتا ہے۔

تاریخ بہت کفایت شعار ہوتی ہے، وقت کو ضائع نہیں کرتی۔ واقعات کا ایک ایک تنکا چن کر جوڑتی رہتی ہے۔ ظاہری طور پر کچھ نہ ہو کر بھی بہت کچھ ہورہا ہوتا ہے۔ ہر واقعہ، ہر سلسلہ حکمران طبقے اور اس کے نظام کو بے نقاب کر رہا ہے۔ ان کی واردات لوگوں کی سمجھ میں آرہی ہے لیکن سمجھ کر بھی وہ کچھ کر نہیں پارہے۔ عوام بیزار ہیں، حکمرانوں کے پاس سماج کو ترقی دینے کی کوئی معاشی پالیسی نہیں اور محنت کش عوام کوحالات بدل ڈالنے کا نظریہ اور انقلابی قیادت فی الوقت میسر نہیں۔

بالادست طبقے میں لوٹ مار کی دوڑ لگی ہے اور کروڑوں انسانوں کی زندگیاں بیگانگی میں سلگ رہی ہیں۔ امیر طبقہ امیر تر ہوتا چلا جارہا ہے اور غریب، غربت کی گہرائی میں دھنسے چلے جارہے ہیں۔ ڈیڈ لاک کی سی کیفیت ہے۔ سیاست، ریاست اور معیشت کا بحران حکمران طبقے سے اعتماد اور قوت فیصلہ چھین چکا ہے تو محنت کش طبقے کی گویائی، بے حسی کے سناٹے میں دب سی گئی ہے لیکن صدا دبی نہیں رہے گی۔

یہ سب کچھ اتنا بھی عجیب نہیں ہے۔ معمول اور جمود کے عہد ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ایسے ادوار کے روپ بدلتے رہتے ہیں، کردار ایک ہی رہتا ہے۔ بھڑکتے سماجی تضادات کا لاوا ایسے ادوار میں بھی سرد بہرحال نہیں پڑتا، پیشہ ور اہل دانش اس کی تپش کو شاید محسوس نہ کرسکے لیکن ڈوریاں ہلانے والے ’’لڑائی‘‘ کی حدود و قیود بھی پہلے سے طے کر دیتے ہیں۔ بڑا ’’پابند‘‘ سا ٹکراؤ کروایا جارہا ہے کہ کہیں سرمایہ داری کے خستہ حال ڈھانچہ ڈھے ہی نہ جائے۔

شریفوں کی بے نیازی کے اندر بھی ایک لرزاہے اور عمران خان کی بڑھکیں بھی ایوانوں کو لرزانے کے لئے ہیں، گرانے کے لئے نہیں۔ اس ’’بغاوت‘‘ میں کچھ کرنے کا عزم نہیں ہے کیونکہ جذبے سچے نہیں اور نظریہ کھوکھلا ہے۔ دھرنوں اور جلسوں میں اکثریت متوسط طبقے کی ہے۔ محنت کشوں کے پاس تو ان تماشوں کو دیکھنے اور لطف اندوز ہونے کا وقت ہے نہ فرصت۔ ان کی لئے تو یہ سیاست ہی بے معنی ہے۔ وہ ایسی سیاست سے بے مہر کیوں نہ ہوں جس میں ان کے لئے کچھ ہے ہی نہیں۔

مڈل کلاس کی اس سیاست سے یہ باور کروانے کی کوشش کی جارہی ہے جیسے محنت کش طبقہ سیاست کے میدان میں کبھی اترا ہی نہیں، انہوں نے کوئی تحریک چلائی ہی نہیں، یہاں کوئی انقلاب ہوا ہی نہیں۔ یہ بدعنوانی سماج کا ایسا معمول بن چکی ہے کہ کسی حیرانی یا پشیمانی شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ ان حالات میں یہ سمجھنا کہ سرمایہ دارانہ ریاست، سیاست اور حکومت کے ذریعے بدعنوانی یا لوٹ مار کو ختم کیا جاسکتا، محض دھوکہ دہی اور خود فریبی کے مترادف ہے۔

اس لئے پی ٹی آئی جیسی پارٹیاں، جن پر دوسری تمام پارٹیوں کے چھٹے ہوئے سرمایہ دار، جاگیر دار اور بدعنوان مسلط ہیں، جب ’’احتساب‘‘ اور کرپشن کے خاتمے کی بات کرتی ہیں تو مضحکہ خیز ہی لگتا ہے۔ جب بدعنوانی ریاستی مشینری اور حکمران طبقات کے رگ و پے میں رچ بس جائے تو اصلاحات ناممکن ہوجاتی ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کے عہد میں یہ کیفیت ہر اس ملک اور ریاست کی ہے جہاں یہ نظام موجود ہے۔ جوں جوں اس نظام کا بحران بڑھ رہا ہے نہ صرف دنیا بھر میں محنت کش عوام کی حالت بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے بلکہ حکمران طبقات کا مجرمانہ کردار بھی بے نقاب ہو رہا ہے۔ اس نظام کو اکھاڑ پھینکنے کے سوا جبر و استحصال اور ذلت سے نجات کا کوئی راستہ محنت کشوں کے پاس نہیں ہے۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: