وزیراعظم کی نااہلی کے خلاف پاکستان پیپلزپارٹی ، تحریک انصاف ، عوامی مسلم لیگ اور عوامی تحریک کی درخواستوں پر ابتدائی سماعت سترہ اگست تک ملتوی کر دی گئی جبکہ عوامی تحریک کا موقف چیف الیکشن کمشنر نے مسترد کردیا۔
چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں فل بینچ نے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف پاکستان پیپلزپارٹی ، تحریک انصاف، عوامی تحریک اور عوامی مسلم لیگ کی درخواستوں پر ابتدائی سماعت کی ، پیپلز پارٹی کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جب ہمارا وزیراعظم نااہل ہو سکتا ہے تو نواز شریف کیوں نہیں – چیف الیکشن کمشنر نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ یوسف رضا گیلانی کا معاملہ توہین عدالت کا ہے جبکہ یہ کیس کرپشن کا ہے آپ اسے نہ لائیں۔ لطیف کھوسہ بولے کہ پهر تو کرپشن توہینِ عدالت سے زیادہ بڑا جرم ہے – چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ تو پهر بتایا جائے کہ پانامہ کیا ہے اس کی تاریخ کیا ہے اور اس کی قانونی اور اخلاقی حیثیت کیا ہے ؟ لیطف کهوسہ کے دلائل دو گھنٹے سے زائد جاری رہے –
عوامی تحریک کے وکیل نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں 17 افراد شہید ہوئے، اس لیے وزیراعظم کو نا اہل قرار دیا جائے ، ابهی تحریک انصاف کے وکیل کے دلائل جاری ہی تهے تو چیف الیکشن کمشنر نے انہیں روکا اور کہا کہ کمیشن آپ کا یہ موقف مسترد کرتا ہے ، وزیراعظم سمیت دیگر افراد کے خلاف عدالت میں کیس چل رہا ہے، یہ اس بات کے لیے صحیح پلیٹ فارم نہیں ہے، ہم کسی کی خواہش پر تو وزیراعظم کو نااہل قرار نہیں دے سکتے لہذا آپ بیٹھ جائیں۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کے وکیل نے کمیشن کو بتایا کہ پانامہ کے ہنگامے کے بعد وزیراعظم صادق و امین نہیں رہے لہذا انہیں نااہل قرار دے کر مثال قائم کی جائے – جسٹس سردار رضا نے سوال کیا کہ یہ جو کچھ بھی آپ بول رہے ہیں اس کا تحریری ثبوت ہے آپ کے پاس تو آئندہ سماعت پر کمیشن کے سامنے پیش کریں۔
پاکستان تحریک انصاف نے کمیشن کو بتایا کہ وزیراعظم نے اپنے کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی کی ہے، پانامہ لیکس کے انکشافات کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ وزیراعظم نے غلط بیانی سے کام لیا اس لیے ان کو فوری طور پر نا اہل قرار دیں۔
کمیشن نے آئندہ سماعت 17 اگست تک ملتوی کرتے ہوئے یہ بات واضح کی کہ تمام درخواست گزار تحریری ثبوت لے کر آئیں اور وکلا کے دلائل آئندہ بهی جاری رہیں گے ۔