قندیل کا المیہ

شبنم اسحاق

24 گھنٹے نشے میں دھت رہنے والےبھائی کو غیرت آ جائے تو یقیناً یا تو ملک میں جابجا موجود گردے میں کوئی خرابی ہے یا پھر امیر وقت سے کوئی غلطی ہوئی ہے۔قندیل کو ایک ایسے بھائی نے قتل کیا جو شاید ہی کسی وقت نشے کے بغیر رہتا ہو۔ ایسے بھائی کو غیرت آنے کا امکان بہت کم ہے۔ پھر قندیل کو کیوں قتل کیا گیا؟ شاید اس سے زیادہ غور طلب پہلو اس قتل کے بعد ہونے والا ردعمل تھا۔

کسی نے اسے پاکستان میں تحریک آزادی خواتین سے منسلک کیا تو کوئی اسے شخصی آزادی کی طرف لے گیا۔ دکھ کی بات تو یہ تھی کہ جس بائیں بازو کی طرف ہم مائل رہے اور ہم جسے اساتذہ کا درجہ دیتے رہے وہ بھی کچھ ایسی ہی باتیں کرتے رہے۔ پھر آخر قندیل تھی کیا؟ اس سوال کا جواب دینے کے لئے قندیل کےکچھ پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

قندیل نے وہ بیچا جو منڈی میں بکتا تھا، یعنی  جسم۔ اب آپ اسے شخصی آزادی کی طرف لے جائیں یا پھر انفرادی خواہش کی طرف مگر منڈی کے اصولوں کے مطابق، وہی ہوا ’’جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے۔ وہ خبر بننا چاہتی تھی تاکہ بک سکے۔ اپنے آپ کو بہتر طور پر ایک شے کی مانند بیچ سکے اور پھر ماڈلنگ یا شوبز میں قدم رکھ کر پیسے کما سکے۔ اس دکھنے بکنے کے کھیل کو کیا شخصی آزادی سے منسلک کیا جا سکتا ہے؟ اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہم نے یہی پڑھا کہ یہ نظام لوگوں کا استحصال کر رہا ہے۔ قندیل بھی ایسے ہی استحصال کا شکار ہوئی۔

لوگوں نے اس کے فہم یا دانش کو تو نہیں دیکھا، دیکھا تو بس اس کا جسم۔ یہی سرمایہ دارانہ نظام کا المیہ ہے۔ قندیل اگر یہ نہ کرتی تو شاید قندیل نہیں ، بلکہ کچھ اور ہوتی۔ اسے اس سرمایہ دارانہ نظام میں جگہ بنانے اور معاشی طور پر مستحکم ہونے کے لئے یہ سب کچھ کرنا پڑا۔ اب سوال یہ ہے کہ  اگر وہ بھی اس نظام کی غلام تھی تو ہم کس شخصی آزادی اور ترقی پسندی کی تحریک چلا رہے ہیں۔ اگر ترقی پسندی صرف کسی شخص کی مذمت ہے تو اس کے دوسرے انداز بھی ہیں، اسے خوامخواہ کیوں ایک ایسی تحریک سے جوڑا جا رہا ہے جو بالکل انحطاط کا شکار ہے۔

لوگ اب بھی اس سب کو سمجھ نہیں پا رہے اور پھر ہم خود اس کو مزید الجھا رہے ہیں۔ قندیل سرمایہ دارانہ نظام میں عورت  کے مسائل کا المیہ تھی جہاں عورت کو اس کی ذہانت اور صلاحیت کی بنیاد پر سرے سے دیکھا ہی نہیں جاتا لیکن اس کے قتل کو ایک آزادی کی تحریک سے منسلک کرنا درست معلوم نہیں ہوتا۔

انگلینڈ میں مس یونیورس کے انعقاد پر پابندی عائد رہی کیونکہ وہاں کی دارالامرا  کا خیال ہے کہ اس کی آڑ میں عورتوں کی منڈی لگائی جاتی ہے۔ یورپ میں مس یونیورس کے خلاف ایک باقاعدہ تحریک بھی موجود ہے جس میں عورت کے اس کردار کے خلاف بہت مباحث کیے جا چکے ہیں۔ پھر ہمارے ملک میں اس قتل کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر خواتین کے مسائل کا کیوں بغور جائزہ نہیں لیا گیا؟ آخر اس سرمایہ دارانہ نظام نے سب سے زیادہ نقصان تو غربت، جہالت اور پسماندگی کی صورت میں بطور طبقہ عورت کو ہی پہنچایا ہے۔

خواتین اور سرمایہ دارانہ نظام کے معاملہ پر بائیں بازو کی بے تحاشہ تحریریں موجود ہیں لیکن دکھ ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو اس تحریک سے وابستہ رکھنے والے لوگ بھی شخصی آزادی کے نام پر قندیل کی حرکات کے دفاع میں لگے ہیں۔ اس بات کا   ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میں شخصی آزادی کے خلاف ہوں لیکن یقیناً میں گرامچی کی بات کو دہرانا چاہوں گی کہ ’’برسراقتدار طبقہ ہی وقت بدلنے کے ساتھ آپ کو نئی اخلاقیات، لب و لہجہ اور ضابطہ اخلاق فراہم کرتا ہے۔ تاکہ اپنے استحصال کا جواب فراہم کر سکے۔‘‘ ایسے میں خواتین کی استحصال بھری شخصی آزادی پر قائل ہونا کچھ درست معلوم نہیں ہوتا۔

ایک عظیم مصنف نے لکھا تھا کہ  ’’ہاں میں خواتین اور مردوں کی برابری پر یقین نہیں رکھتا۔ ہاں میں نہیں رکھتا کیونکہ یہ برابری سرمایہ دارانہ نظام نے دی، یہ برابری اشیا کی برابری ہے، تاکہ مرد اور عورت میں فرق ختم ہو، وہ دونوں مل کر صنعت میں اکٹھے کام کر سکیں، عورت  عورت نہ رہے اور مرد مرد، تب ہی بہتر طور پر منافع کمایا جا سکے گا، ہاں میں مرد اور عورت کی ایسی مصنوعی برابری کا قائل نہیں ہوں۔‘‘

 

ڈاکٹر شبنم اسحاق شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں اور ایک سرکاری کالج میں پڑھا رہی ہیں۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: