امریکا میں پیدائشی نشئی

کابیل ہنٹنگٹن ہاسپٹل میں سارا مرے دو درجن بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ وہ کانپ رہے ہوتے ہیں۔ اُلٹیاں کررہے ہوتے ہیں۔ انہیں کسی بھی طرح راحت نہیں ملتی۔ ان کی چیخیں آسمان پھاڑ رہی ہوتی ہیں۔ ان کی ایسی حالت کبھی چند گھنٹوں کے لیے ہوتی ہے، کبھی چند دن کے لیے، تو کبھی مہینوں اس عذاب کو جھیلنا پڑتا ہے۔

پُروقار اور نرم گفتار سارا مرے ایک تجربہ کار نرس ہیں جو بغیر سانس لیے ان معصوموں کا خیال رکھنے کی جدوجہد میں مصروف رہتی ہیں۔ تاہم کبھی کبھی ان کی ہمت بھی جواب دے جاتی ہے۔ جب انتہائی بُرے دن ہوں تو وہ چند لمحوں کے لیے اپنے ڈیسک کے پیچھے پناہ لے لیتی ہیں اور حیران ہوکر سوچتی ہیں کہ ہم اس نہج پر کیسے پہنچے؟

یہ بچے انتہائی خوفناک وبا کے سب سے کم عمر شکار ہیں۔

یہ ہیروئن بے بی ہیں۔ پیدائشی نشئی۔

ہاسپٹل کی تیسری منزل پر سارا کا یونٹ ایک پُرسکون جگہ ہے جو 12 بچوں کی نگہداشت کے لیے بنا ہے لیکن یہاں بچوں کی تعداد اتنی یا اس سے کم رہی ہو اس بات کو دو سال ہوچکے ہیں۔ ہاسپٹل میں پیدا ہونے والے ہر دس میں سے ایک بچہ کسی نہ کسی طرح کی منشیات سے متاثر ہے۔ ہیروئن، افیم، کوکین، الکوحل یا ایک ساتھ مختلف قسم کے نشے۔

اوہائیو دریا کے کنارے 49 ہزار آبادی والے اپالاچیئن قصبے کے اعداد و شمار خوفناک حقائق بیان کرتے ہیں۔ محکمہ صحت کے مقامی حکام کا کہنا ہے کہ ہر چار میں سے ایک فرد ہیروئن یا کسی دوسری نشے کا عادی ہے۔ یعنی تقریبا 12 ہزار افراد افیونی ہیں۔ اور ویسٹ ورجینیا میں ضرورت سے زیادہ نشہ کرکے ہلاک ہونے والوں کی تعداد باقی تمام ریاستوں سے زیادہ ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ ہنٹگٹن میں تقریبا ہر فرد اس وبا کا شکار ہے، والدین جن کے بچے اپنی عادتوں کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں اور گھروں میں چوریاں کرتے ہیں، ماں باپ جو اپنے بیٹے بیٹیوں سے زیادہ عرصہ زندہ رہ پاتے ہیں۔

رگوں میں دوڑتے زہر کا سب سے ہولناک اثر سب سے کم عمر نسل پر پڑتا ہے، بچے اپنے سامنے والدین کو زندگی جہنم بناتے دیکھتے ہیں، یا لاوارث چھوڑ دئیے جاتے ہیں یا پیدائشی نشئی پیدا ہوتے ہیں۔

sara-murray

26 سال سے نرس کا کام کررہی سارا مرے کہتی ہیں، ”یہ سب پریشان کن ہے، افسوسناک ہے اور دل پسیج دینے والا ہے۔ میری ذات بچوں کے لیے تڑپتی ہے اور چاہتی ہوں کہ کوئی ان کی آواز بنے۔”

15 اگست والے دن سارا مرے اور ان کے سٹاف کی 8 نرسیں خاص طور پر ایک بچے کے لیے بہت زیادہ تشویش میں مبتلا تھیں۔ بچے ماں جس نشے کی لت میں مبتلا تھی اس کا نام انہیں نہیں بتارہی تھی اور ایسے میں بچے کی نگہداشت کرنا نرسوں کے لیے اعصاب شکن کام تھا۔

زیادہ تر نوزائیدہ بچوں کے والدین غائب ہوتے ہیں اور امکان یہی ہوتا ہے کہ جیسے بچوں کی چیخیں بڑھ رہی ہوتی ہیں ویسے ہی ان کے نشے کی ڈوز بھی۔

دوپہر کے وقت جب گرمی اپنا رنگ دکھارہی تھی، ڈیوڈ میکلیور اپنی نیلی دھاریوں والی ایس یو وی ایمبولینس میں ویسٹ ہٹنگٹن برج کے قریب حادثے کی جگہ پر پہنچتے ہیں۔ ایک کار سڑک کی درمیانی رکاوٹ سے ٹکرائی ہوئی ہے جس کا انجن اب بھی چل رہا ہے۔ گاڑی میں 21 سالہ خاتون سٹیئرنگ وہیل پر جھکی نظر آتی ہے، اس کی ٹھوڑی سینے سے لگی ہوئی ہے، منہ سے جھاگ بہہ رہی ہے اور اسے سانس بھی کم آرہی ہے۔

” کیا تم میری آواز سن رہی ہو، کیا تم مجھے سن سکتی ہو؟” میکلیور اس کے منہ کے قریب زور سے چلاتے ہیں۔ پھر اس کے پپوٹے اٹھاکر آنکھوں میں پین لائٹ سے روشنی ڈالتے ہیں۔ دونوں آنکھوں کی پھیلی ہوئی پتلیاں واضح طور پر زیادہ مقدار میں نشہ کرنے کی گواہی دیتی ہیں۔ وہ نیچے دیکھتے ہیں تو گود میں پڑی سرنج بھی نظر آجاتی ہے۔

میکلیور ڈرگ اوور ڈوز کے واقعات کے عادی ہوچکے ہیں۔ کابیل کاؤنٹی ایمرجنسی میڈیکل سروسز کے عملے کو روزانہ ایسی کالوں کا جواب دینا پڑتا ہے۔ جو آپ کی سوچ ہے وہ انہوں نے دیکھ رکھا ہے۔ اپنا ہوش گنواچکی مائیں جن کے بچے سیٹ بیلٹ باندھے ساتھ موجود ہوتے ہیں، فرش پر اوندھے منہ پڑے باپ جن کے ابھی چلنا سیکھنے والے بچوں کی پہنچ میں ہیروئن پڑی ہوتی ہے۔ ہیروئن کے نشئیوں نے کبھی اپنی جان بچ جانے پر میکلیور کا شکریہ ادا نہیں کیا ہاں اکثر انہیں نشہ بھنگ کرنے پر شکوے ضرور سننے کو ملتے ہیں۔

the-highway

پُل پر موجود عورت کی زندگی بچانے کے لیے ان کے پاس صرف چند منٹ ہیں، میکلیور کا ساتھی خاتون کے پھیپھڑوں میں بیگ والو ماسک کے ذریعے ہوا پہنچاتا ہے۔ اس کے بائیں بازو کی نس میں صاف جگہ تلاش کرکے نشہ اتارنے کی دوا کا انجکشن لگاتے ہیں۔ نالوکسن نامی دوا اوور ڈوز کا عمل الٹا کرتی ہے اور نشئیوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچاتی ہے۔

اگلے دو منٹ میں وہ آنکھیں جھپکاتی زندگی کی طرف واپس آتی ہے، ایمبولینس کے عقبی حصے کی روشنیوں سے اس کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں، جس وقت تک اسے مزید علاج کے لیے اسپتال پہنچایا جاتا ہے اس دوران کسی دوسرے نشئی کے ضرورت سے زیادہ نشہ کرنے کا اگلا پیغام آچکا ہوتا ہے۔

ماضی میں بھی ایک سانحہ اس قصبے کو رُلا چکا ہے۔ نومبر 1970 میں مارشل یونیورسٹی کی فٹ بال ٹیم کو لے جانے والا طیارہ پہاڑ سے ٹکرا کر تباہ ہوگیا تھا۔ کھلاڑیوں، کوچز اور شائقین سمیت 75 افراد حادثے میں ہلاک ہوئے تھے۔ پھر ”کریش سے پہلے” اور ”کریش سے بعد” کی اصلاحات قصبے کا ورثہ بن گئیں۔ کریش کے بعد ہنٹگٹن کے لوگوں نے کیسے ایک دوسرے کا دُکھ بانٹا فلم ”وی آر مارشل” اس جذبے کی کہانی بیان کرتی ہے۔ آج ہنٹگٹن کو ایک بہت مختلف اور بے رحم دشمن کا سامنا ہے۔ ہیروئن کا استعمال اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ ”نارکینڈ” اصطلاح زبان زد عام ہوچکی ہے۔ نارکینڈ ضرورت سے زیادہ نشے کا اثر کم کرنے والی دوا کا نام ہے۔ اکثر لوگ یہ پوچھتے نظر آتے ہیں، ”تم کتنی بار نارکینڈ ہوچکے ہو؟” ایسا سننا بھی غیرمعمولی نہیں جب کوئی نشئی بتائے کہ چار یا پانچ بار۔

اس دن ایک نئی تعداد سامنے آئی۔ صرف پانچ گھنٹے کے دوران اوور ڈوز کے 28 کیس سامنے آئے۔ اس آفت نے ہنٹگٹن کے تمام وسائل کو نچوڑ ڈالا۔ قصبے کے دو اسپتالوں کے ایمرجنسی روم بھرچکے تھے جہاں طبی عملے کو اعصاب شکن صورتحال کا سامنا تھا۔ اور پولیس کو ہیروئن میں نامعلوم منشیات ملا کر بیچنے والے کی تلاش تھی۔

متاثرین کی عمر 19 سے 59 سال کے درمیان تھی۔ ان میں سے کوئی گھر میں پڑا ملا تو کوئی گلی میں۔ ایک نشئی برگر کنگ کے پارکنگ لاٹ سے ملا تو دوسرا ایک اسٹور کے باتھ روم سے۔ ان میں ایک ساتھ نشہ کرنے والے باپ بیٹا اور میاں بیوی بھی تھے۔

یہ ایسا لمحہ تھا جس کے بارے میں ہر کوئی جانتا تھا کہ ضرور آئے گا۔ ایک ایسا لمحہ جس کو روکنا کیسے ہے کوئی نہیں جانتا تھا۔

کابیل کاؤنٹی ایمرجنسی میڈیکل سروسز کے کیپٹن ڈیرک رے ”آؤ اور مرجاؤ” سین پر پہنچتے ہیں۔ حکام اسے ”انتہائی ہنگامی” صورتحال قرار دے رہے ہیں۔ سیکامور سٹریٹ پر ایمبولینسز، پولیس کی گاڑیاں اور فائر بریگیڈ کے ٹرک کھڑے ہیں۔ مقامی ٹی وی کا عملہ بھی اپنے کیمرے لیے یہاں موجود ہے۔

رے اس علاقے کو اچھی طرح سے جانتا ہے۔ اکثر ہنگامی کال آنے پر اسے یہاں چکر لگانا پڑتا ہے۔ ادھر کے رہائشی اُسے بُرا بھلا بھی کہتے رہتے ہیں اور جب ان کی جان خطرے میں ہو تو اس سے مدد بھی مانگتے ہیں۔

آج کا دن بھی ان دنوں میں سے ایک ہے۔

ایک پولیس والا گھر میں داخل ہو کر دو مردہ نظر آنے والے نشئیوں کی رانوں میں نالوکسن کا انجیکشن لگاتا ہے۔ دونوں بچ جاتے ہیں۔ دو اور نشئی بھی نیم مدہوش نظر آتے ہیں تاہم ان کی حالت اتنی خراب نہیں کہ نالوکسن دی جائے۔ رے پاس والے اپارٹمنٹ کمپلیکس میں داخل ہوتا ہے جو کم آمدنی والے لوگوں کی رہائش گاہ ہے۔

derrick-ray-naloxone

ایک تنگ سے صحن میں 23، 27 اور 32 سال کی تین خواتین پڑی ملتی ہیں جن میں سے دو بے ہوش ہیں۔ تیسری زمین پر بازو اوپر اٹھائے ایسے رینگ رہی ہے جیسے ”دی واکنگ ڈیڈ” کی زندہ لاش ہو۔

طبی عملہ فوری طور پر تینوں کو آکسیجن فراہم کرتا ہے اور نالوکسن لگاتا ہے۔ رے دو دہائیوں سے سپروائزر ہیں۔ فون کی گھنٹی بجنے پر اسے سانس لینے کا موقع مل پاتا ہے۔ یہ میکلیور کی کال تھی جو پُل پر حادثے کی شکار گاڑی میں خاتون کو طبی امداد دے کر فارغ ہوا تھا۔ میکلیور اب رے سے پوچھ رہا ہے کہ اسے آگے کدھر جانا ہے؟

پہلی کال ملنے کے 20 منٹ بعد تک ایمرجنسی عملہ اوور ڈوز لینے والے آٹھ نشئیوں کو طبی امداد فراہم کرچکا تھا۔ اور ابھی دن ختم ہونے میں بہت وقت باقی ہے۔

ایک اور ایمرجنسی کال موصول ہوتی ہے۔ میکلیور اپنے ایمبولینس کو لے کر جیفرسن ایونیو پر واقع اپارٹمنٹ بلڈنگ پہنچ جاتے ہیں۔

میکلیور چھ سال پہلے اوہائیو کے 2 ہزار آبادی والے ایک قصبے سے ہنٹگٹن آیا تھا۔ اس کے آبائی علاقے میں کام کی رفتار اتنی سست تھی کہ دن بھر مں اسے طبی امداد کی صرف پانچ کالیں سننا ہوتی تھیں۔ وہ تسلیم کرتا ہے کہ اس کام کے لیے وہ تیار نہیں تھا۔ اس نے خود کو موجودہ صورتحال کا عادی بنالیا ہے۔ تاہم وہ ڈرتے ہیں کسی دن ایسا نہ ہو کہ دل کے دورے کا مریض ان کی راہ تکتے مرجائے اور طبی عملہ کسی اوور ڈوز نشئی کا نشہ اتار رہا ہو۔

میکلیور اپارٹمنٹ کی دوسری منزل پر پہنچتے ہیں جہاں دو خواتین ان کی ایک باتھ روم تک رہنمائی کرتی ہیں۔ ادھر 47 سالہ باپ اور 26 سالہ بیٹا بے ہوش پڑے ہیں۔ ان کی رشتے دار خاتون بتاتی ہے کہ دونوں نے 20 ڈالر کی ہیروئن کا نشہ کیا ہے۔ باپ باتھ ٹب میں پڑا ہے جہاں خواتین نے اسے ہوش میں لانے کی کوشش کی۔ ٹوائلٹ کی دوسری طرف بیٹا دیوار کے ساتھ پڑا ہوا ہے۔

کیا ان کی سانس چل رہی ہے؟ کیا ان کی نبض چل رہی ہے؟ کیا انہیں بچایا جاسکتا ہے؟ میکلیور کے دماغ میں فوری طور پر یہ سوال آتے ہیں۔

خواتین چیخ رہی ہوتی ہیں، میکلیور انہیں کمرے سے نکل جانے کو کہتا ہے۔ اگر دونوں مردہ پڑے ہیں تو وہ نہیں چاہتا کہ دوسرے دیکھیں ان کے ساتھ آگے کیا ہوتا ہے۔

دونوں بے ہوش افراد پر چیخنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ وہ جانتا ہے کہ دونوں اس کی آواز پر نہیں اٹھنے والے۔ بیٹے کی سانس انتہائی کم چل رہی ہے۔ ایک منٹ میں بس صرف دو سانسیں ارہی ہیں۔ باپ کی سانس نہیں چل رہی، اس کا چہرہ نیلا پڑ رہا ہے۔ میکلیور دونوں کو مشین سے تنفس فراہم کرتا ہے اور ان کے نتھنوں میں نالوکسن سپرے کرتا ہے۔ کیونکہ وہ اکیلا تھا اس لیے اس کے پاس رگ تلاش کرنے کا وقت نہیں تھا۔ دو مزید جانیں بچ جاتی ہیں۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: