انقلابی کی کہانی

خالد پرویز

گلشن لغاری نے جب ہوش سنبھالا تو خود کو اپنی ماموں کامریڈ غلام محمد لغاری کی لائبریری “مرکز انسانیت” میں پایا جہاں ہزاروں کتابیں موجود تھیں۔

سوشلزم، کمیونزم اور روسی ادب پر ایک خزانہ یہاں موجود تھا۔کامریڈ غلام محمد لغاری نے خاکسار تحریک سے سیاست کا آغاز کیا اورآزادی کی تحریک میں پہلی مرتبہ گرفتار ہوئے۔

جیل میں کمیونسٹ ساتھیوں کی صحبت میں کمیونزم کو پڑھ کر کمیونسٹ بن گئے۔ آگے چل کرکامریڈ حیدر بخش جتوئی کے ساتھ ہاری تحریک میں  سرگرمی سے حصہ لیا اور اپنی زندگی کا بیشتر حصہ جیلوں  میں گزارا ۔ ساری زندگی پاکستان بننے کے بعد ہر حکومت میں ریاستی جبر سے آنکھ مچولی کرتے جیلوں میں گزارا ۔

as

کامریڈ غلام محمد لغاری نے اخبار “سچائی” سویت یونین سے نکلنے والی اخبار ’’پراودا‘‘ سے متاثر ہو کر نکالا۔پراودا کا مطلب”سچائی” ہے۔

گلشن لغاری نے بچپن میں ہی عام بچوں سے مختلف حالات دیکھے۔ اس نے اپنے ماموں  کی جیلیں، تحریکیں، ریاستی اداروں  کا جبر  کی سعوبتیں سہتے دیکھا۔ انہوں نے اپنے والد  کو کامریڈ غلام حیدرلغاری کی مقدمات میں ضمانتوں کے سلسلے میں عدالتوں اور تھانوں کے چکر کاٹتے دیکھا۔

چھوٹی عمر میں اس پر عیاں  ہو گیا کہ جو لوگ اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں وہ ہمیشہ جبر کا نشانہ بنتےہیں۔ اس کا بچپن زیادہ ترلائبریری میں گزرا ۔ گلشن نے دنیا کی انقلابی تحریکوں سمیت سندھی  اور اردوادب کو پڑھا۔

وہ اپنا گاؤں  نبی سرروڈ ، جو عمرکوِٹ ضلع میں ہے ، چھوڑ کر میرپور خاص آگئیں۔ اس نے ابتدائی اسکول کی تعلیم یہاں سے حاصل کی اور گریجویشن کی تعلیم میرپورخاص سے مکمل کی۔

اس نے اپنی سیاسی سرگرمیاں  ضیا کے دور میں خواتین کی تنظیم ’’ناری تحریک ‘‘ کا بنیاد ڈال کر شروع کی جس کی وہ مرکزی صدر بھی رہیں۔

گلشن نے روزگار کی خاطر مختلف این جی اوز کے ساتھ بھی کام کیا لیکن انقلابی سوچ اور باغیانہ ذہن اس انداز کو قبول نہیں کر سکا۔ اس کا کہنا تھا کہ این جی اوز معاشرے کو نہیں  بدل سکتیں اور وہ سیاست کو تبدیلی کا محرک سمجھتی ہے۔

اس لئے اس نے سیاسی جدوجہد جاری رکھی اور سندھ یونائٹیڈ پارٹی کو جوائن کیا جس کی وہ مرکزی نائب صدر رہیں۔ تاہم انہیں جلد احساس ہوا کہ ملکی سیاست میں حصہ لینے کے لئے جاگیردار یا سرمایہ دار ہونا ضروری ہے۔ کوئی خالی ہاتھ انسان صرف جذبے کے سہارے سیاست میں حصہ نہیں لے سکتا تو وہ سیاست سے کنارہ کش ہوگئیں۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ وہ پاکستان اور خصوصی طور پر سندھ  میں  عورت کے کردار کو وہ کس نظر سے دیکھتی ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ دنیا کی انقلابی تحریکوں  میں عورت مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ لڑتی رہی ہے۔ بے حد ظلم و جبر کے باوجود عورت نے ہار نہیں مانی۔ اگر آج زندگی کے ہر شعبے میں عورت کی موجودگی محسوس ہوتی ہے تو یہ عورت کی انتھک جدوجہد کا ہی نتیجہ ہے۔

سندھ  اور پأکستان کے حوالے سے انہوں نے کہا” طبقاتی نظام اور مردانہ برتری رکھنے والے اس سماج میں عورتیں اور بچے زیادہ ظلم کا شکار ہوتے ہیں۔ خصوصی طور پر سندھ میں قبائلی سرداری نظام کے تحت عورت کا کارو کاری کے نام پر قتل انتہائی افسوناک عمل ہے۔

سندھ  میں عورتوں  کے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والی خواتین کو سراہتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جہاں  اندھیرا ہی اندھیرا ہو ، جہاں روشنی کی کرن بھی نظر نہ آئے ، وہاں  جو خواتین عورتوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھا رہی ہیں  وہ کسی انقلابی تبدیلی کا نعم البدل تو نہیں لیکن پھر بھی وہ ظلم کے سناٹے میں  حق کی آواز ضرور ہے۔

علم اور ادب گلشن کو وراثت میں ملا۔ گلشن لغاری سندھی میں شاعری بھی کرتی ہیں۔ ان کا مجموعہ کلام”وچھڑی ویل زندگی” کے نام سے شائع ہوا جو سندھ  کے علمی ادبی حلقوں  میں  بہت سراہا گیا۔ اس کے علاوہ مختلف اخباروں  میں  ان کے کالم چھپتے رہے ہیں ۔

انہوں نے کچھ عرصے تک ایک سندھی اخبار میں ایک ادبی صفحے کی ادارت بھی کی، جو بہت مقبول ہوا۔جب ان  سے مشاغل کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا کتاب پڑھنا اور موسیقی سننا۔

ان کی موسیقی کا شوق بہت قابل دید ہے۔ ان کی کلیکشن میں زیادہ تر کلاسیکل اور غزل گائیکی ہے۔ ملک کی حالیہ صورتحال کے بارے میں پوچھے گئے سوال میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ پیچیدہ صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے۔ سیاستدانون کو چاہیے کہ بلوچستان کے بارے میں سنجیدگی سے سوچیں۔

ان سے سوال کیا گیا کہ ناری تحریک سے لے کر ایس یو پی، این جی اوز اور صحافت کے تجربات سے گزر کر آپ کس نتیجے پر پہنچی ہیں؟

انہوں نے برملا کہا,دیکھیں، میں ایک ایسے انقلابی گھر میں پیدا ہوئی جہاں میں نے اپنے بڑوں  کی جدوجہد کرتے دیکھا۔ اپنے خاندان پر آنے والے ایک ایک برے دن کو گزارا۔میں نے بچپن سے مارکسزم اور سوشلزم کو سمجھنا شروع کیا ۔ آج تک سوشلٹ انقلاب میرا خواب ہے۔میری جڑیں  غریبوں، مزدوروں  اور کسانوں  کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ سوشلسزم ہی ایسا نظام یا ایسا نظریہ ہے جو انسان کا نجات دہندہ ہے۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: