مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

تانیہ سلیمان

اتنی سے اتنی ہو گئی، لیکن  ابھی تک کچھ تبدیل نہیں ہوا۔ ایک کے بعد ایک حکومت کا وعدہ ، لیکن کوئی وفا نہیں ہوا۔ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں خوشگوار حیرت ہو یا صرف  حیرت، سب سے پہلے بجلی ہی جاتی ہے۔ خوشگوار ہوا چلے، پھوار ہو، آندھی آئے، بلوا ہو، یا کوئی مر جائے، تان ہمیشہ بجلی پر ہی ٹوٹتی ہے۔حکومت آئے تو بجلی لانے کا وعدہ جائے تو پھر بجلی لانے کا وعدہ، بس بجلی آتی نہیں ہے۔

کبھی کہا جاتا ہے کہ ملک کا موجودہ سسٹم 15ہزار سے زیادہ بجلی ترسیل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا  اور اس کی اپ گریڈیشن کے لئے اربوں ڈالر چاہئیں، تو کبھی سرکاری ادارے پر ٹکر چلتے ہیں کہ آج ہم نے 17ہزار میگا واٹ بجلی بنا لی، اگر ایسا ہی ہے تو اپ گریڈ کیے بغیر  یہ کیسے ہوا۔

کبھی پٹرول مافیا کا ذکر خیر تو کبھی  ایل این جی کی کہانی، کبھی ڈیموں کی تعمیر کا مسئلہ تو کبھی کچھ اور، جینکوسےسی  پی پی اے  کی راہداری اور ڈسکوز کا سائیکل،قصہ مختصر یہ کہ چکی کے چار پاٹ، جہاں  بات تھی ، وہیں کھڑی رہی۔ بجلی نہ آنی تھی نہ آئی۔ حکومت پہلے 2017 کا وعدہ کرتی تھی اب 2018 تک سرک گئی ہے، امید ہے پھر مہینے کرتے کرتے بات کچھ آگے چلی جائے گی ۔

حکومتی وعدے کی حقیقت کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ لوڈشیڈنگ کےوعدہ کا تعلق بھی صرف شہروں تک ہی ہے یعنی جیسے لوڈشیڈنگ کم ہوئی تو شہروں میں کم ہوئی دیہی آبادی کی آواز حکمرانوں اور شہروں تک نہیں پہنچتی۔ ہم شہروں میں بسنے والے بھی اسی پر خوش ہیں کہ چلو یہاں تو بجلی آتی ہے۔ پھر شکوہ بھی ہم کرتے ہیں کہ لوگ پاکستانی نہیں، بغاوت ہوتی ہے، ریاست کے خلاف تشدد ہوتا ہے، اگر وسائل کی منصفانہ تقسیم نہیں ہو گی تو پھر کیا یہ ہونا فطری عمل نہیں؟

ایسی بہت سے باتیں کی جا سکتی ہیں، لفظ کو لفظ سے جوڑ کو حکمرانوں کا تمسخر اڑا کر رانجھا راضی کیا جا سکتا ہے، قارئین سے داد وصول کی جا سکتی ہے لیکن سچ  یہی ہے کہ اگلی بار پھر وہی سرکاری، وہی بجلی کے وعدے اور وہی ووٹنگ،لیکن  موجودہ صورتحال میں تو بس اب ایک ہی پریشانی رہ گئی ہے کہ  جائے تو آنی کب ہے اور اگر نہ جائے تو پریشانی کے جا کیوں نہیں رہی ؟

%d bloggers like this: