برطانوی ریفرنڈم کا امریکی صدارت انتخابات پر اثر

برطانیہ کے  یورپی یونین کو چھوڑنے کے فیصلے سے نہ صرف عالمی سٹاک مارکیٹوں میں زلزلہ آیا بلکہ اس سے امریکی  ڈیموکریٹس حلقوں میں بھی گھبراہٹ طاری ہے۔

اگر برطانیہ میں تجارت اور مہاجروں کے مخالف اور قومیت پرستی کے جذبات مل کر غلبہ پاسکتے ہیں تو پھر کیسے کہا جاسکتا ہے کہ یہ اوہائیو میں غالب نہیں آسکتے۔

متوقع ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی مہم کا مرکز انہی تصورات کو بنارکھا ہے جنہوں نے برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدگی کی مہم کو متحرک بنایا تھا۔

 ٹرمپ نے تجارتی معاہدوں پر دوبارہ مذاکرات اور فیکٹریوں کو امریکی سرزمین پر واپس لانے کا وعدہ کررکھا ہے۔ انہوں نے یہ عہد بھی کیا ہوا ہے کہ امریکا اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کریں گے اور غیرقانونی تارکین وطن کو امریکا سے نکالیں گے۔ ٹرمپ کا “امریکا کو دوبارہ عظیم بناؤ” کا نعرہ انتہاپسند قومیت پرستی سے بس کچھ ہی درجے کم ہے۔ انہی جذبات کی بدولت ٹرمپ ری پبلکن پارٹی کی جانب سے نامزدگی کے لیے سرفہرست ہیں اور انہی جذبات کی بدولت برطانیہ یورپی یونین سے نکل گیا۔

برطانوی ریفرنڈم کے کچھ ہی دیر بعد سکاٹ لینڈ میں رپورٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کہتے ہیں، ” لوگ اپنا وطن واپس چاہتے ہیں۔ وہ ایک طرح سے آزادی کا احساس چاہتے ہیں اور آپ اس کو یورپ کے تناظر میں دیکھ سکتے ہیں، ابھی جو ہوا ہے میرے خیال میں آنے والے وقت میں پورے یورپ میں اس سے بڑھ کر ہونے والا ہے۔ آپ لوگوں کے سامنے ایسے کئی معاملات آنے والے ہیں جہاں لوگ اپنی سرحدیں واپس چاہیں گے، وہ اپنا پیسہ واپس چاہیں گے، وہ بہت کچھ واپس حاصل کرنا چاہیں گے، وہ اس قابل ہونا چاہیں گے کہ دوبارہ ایک ملک بن سکیں۔”

ڈونلڈ ٹرمپ کے نعروں سے موازنے نے ان کی ڈیموکریٹک حریف ہلیری کلنٹن کو پریشانی میں مبتلا کررکھا ہے۔ ان کے عہدیدار عوامی سطح پر خبردار کرتے نظر آتے ہیں کہ اسٹاک مارکیٹ کی حالیہ مندی ٹرمپ کی پالیسیوں کے سامنے بونی پڑجائے گی۔ اگر امریکا بھی عالمی مارکیٹ سے نکل جاتا ہے تو برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے جیسا عدم استحکام پیدا ہوجائے گا۔ ٹرمپ کی صدارت معمولی سرمایہ کاروں کے ریٹائرمنٹ کے پیسے بھی لے ڈوبے گی۔

ہلیری کلنٹن کے پالیسی ایڈوائزر جیک سلیوان کہتے ہیں، ” ہمارا ماننا ہے کہ امریکی کام کرنے والے خاندان آج ووٹ کے نتائج دیکھیں گے اور حقیقت میں خود سے سوال کریں گے کہ کیا وہ غیریقینی معاشی صورتحال، رسک اور خطرناک تجاویز چاہتے ہیں۔”

ڈیموکریٹس کو اس بات کا ادراک بھی ہے کہ شاید انہوں نے برطانیہ میں پھوٹنے والے عوامی سیاست، تارکین وطن اور نظام کے خلاف جذبے کا درست اندازہ نہیں لگایا تھا جو کہ امریکا میں بھی پھیل سکتا ہے۔ ہلیری کلنٹن کے ایک ساتھی کہتے ہیں، ” برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد اگر کچھ مفروضات پر سوال نہ اٹھایا گیا تو یہ حماقت ہوگی۔” ایک اور صاحب فرماتے ہیں، ” یہ ایک دن کی کہانی نہیں، یہ جذبات حقیقی ہیں۔” اور ایسا صرف برطانیہ میں آخری بار نہیں ہورہا کہ عوام نے پُرانے نظام کے خلاف بغاوت کی، فرانس اور آسٹریا میں بھی اس پر غور ہوچکا ہے۔

ڈیموکریٹس کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کے اسکاٹ لینڈ والے بیان پر ردعمل دینے کے لیے بلائی گئی نشست میں رپورٹرز کی توجہ اس سوال پر رہی کہ برطانوی ریفرنڈم کے نتائج امریکا میں کن خطرات کی نشاندہی کرتے ہیں اور ہلیری کلنٹن کی مہم اس سے کتنی متاثر ہورہی ہے۔ ان نتائج کے بعد اگلے پانچ مہینوں میں مہم کیا رخ اختیار کرنے جارہی ہے۔ ان سب سوالوں کو ہلیری کلنٹن کی ابلاغیات کی نمائندہ جینیفر پالیمیری نے یہ کہہ کر کاٹ دیا، ”امریکا، برطانیہ سے مختلف ملک ہے۔” تاہم اس سے یہ ضرور واضح ہوا کہ برطانوی ریفرنڈم ان کے مستقبل کے لائحہ عمل کو ضرور متاثر کرے گا۔

ہلیری کلنٹن کی ٹیم مڈویسٹ کے صنعتی علاقوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت سے پریشان ہے۔ امریکیوں کو نوکریاں واپس دلانے کی نعرے کی بازگشت یہاں پر صرف ری پبلکنز میں ہی سنائی نہیں دیتی۔ ٹرمپ کے جلسوں میں اکثر یونین ممبر ملتے ہیں جنہیں یاد ہے کہ صنعتی نوکریاں کب آسانی سے اور اچھے پیسوں پر ملتی تھیں۔ ان میں سے بیشتر لوگ اپنی خستہ حال ہوتی زندگی کا ذمہ دار ان پالیسیوں کو ٹھہراتے ہیں جن کی حمایت ہلیری کرتی ہیں۔ اور حتی کہ وہ لوگ بھی جو ٹرمپ کو پسند نہیں کرتے اس کے نوکریاں واپس دلانے کے پُراعتماد نعرے پر یقین رکھتے ہیں۔

ہلیری کلنٹن تین ہفتوں میں اوہائیو کے اتنے ہی دورے کیوں کررہی ہیں ایسا جزوی طور پر اس وجہ سے ہے کہ یہ سوئنگ سٹیٹ امریکی انتخابی جنگ میں انتہائی اہم میدان ہے۔ کوئی بھی ری پبلکن امیدوار اوہائیو میں جیتے بغیر صدر نہیں بنا، اور آخری ڈیموکریٹ جس نے ایسا کچھ کیا ہو وہ جان ایف کینیڈی تھا۔

ایسا جزوی طور پر اس وجہ سے بھی ہے کہ ہلیری کی ٹیم نے برطانوی ریفرنڈم کے عالمی معیشت پر اثرات کو بڑی حد تک نظر انداز کیا اور اس کے بجائے اپنے ایشور پر ہی توجہ مرکوز رکھی۔ جیک سلیوان کہتے ہیں، ” آج ہم گرتی ہوئی مارکیٹوں سے دیکھ سکتے ہیں، ریفرنڈم سے پیدا ہونے والی غیریقینی معاشی صورتحال امریکی خاندانوں کی جیبوں کو متاثر کرسکتی ہے۔ ان کی بچت، ان کی کمائی، اور بہت کچھ۔ اسی وجہ سے ہلیری کلنٹن نے واضح طور پر اس بات کو اپنی ترجیح بنایا ہے کہ اس ووٹ کے نتائج سے امریکی کام کرنے والے خاندان متاثر نہ ہوں۔”

ڈونلڈ ٹرمپ اس نتیجے پر بڑا پُرسکون تھا۔ “بنیادی طور پر انہوں نے اپنا ملک واپس حاصل کیا۔”ہم بمقابلہ وہ ٹرمپ کی مہم کی بنیاد ہے اور یہ ایسا موضوع ہے جسے وہ ان ووٹروں کے سامنے پیٹتا رہے گا جو اپنی غیریقینی معاشی صورتحال کا ذمہ دار دوسروں کو سمجھتے ہیں۔

ہلیری کلنٹن کے مشیر اپنے گھبرائے ہوئے اتحادیوں کو یہ بتانے میں مصروف ہیں کہ ٹرینڈز اب بھی ان کی طرف ہیں اور وہ مخصوص عوامل بھی بیان کررہے ہیں جن کی وجہ سے ووٹر نومبر میں ہلیری کو ووٹ دے گا۔ مثال کے طور پر اوہائیو کو ہی لیں۔ سن 2000 سے یہاں ہسپانوی آبادی 76 فیصد بڑھی ہے۔ ان ووٹروں کی وجہ سے ڈیموکریٹس کو شہری علاقوں کو مضبوط گڑھ بنانے میں مدد ملی۔

یا ریاستی مرکز کولمبس کی فرینکلن کاؤنٹی کو ہی لیں جہاں ڈیموکریٹس کے سن 2000 میں 4156 ووٹ سن 2012 میں 117،713 کے بڑے ووٹ مارجن میں بدل جاتے ہیں۔ ہلیری کلنٹن کی مہم میں اسی حساب کتاب پر نظر ہے۔ اس کے منصوبہ ساز حساب کو جذبات پر فوقیت دینے والی حکمت عملی پر ہی کاربند ہیں۔

ہلیری کے ایک اتحادی کا ہی کہنا ہے، ” یہ ایک پیسنے والا عمل ہوگا لیکن اس کی ایک وجہ ہے کہ ہم کیوں گھبراہٹ کا شکار نہیں۔ برطانیہ کے برعکس ہم یہاں جذبات کا استعمال کرنے نہیں جارہے۔”

بشکریہ دی ٹائمز

انگلش  میں مضمون پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

x

Check Also

شامی بچے، ترک مہربان

ترکی کی اپوزیشن پارٹی  سی ایچ پی کی رپورٹ ترکی میں آنے والے شامی بچوں ...

شامی پنجرہ

جیمز ڈین سلو   شام کا بحران دن بد دن بد سے بد تر ہو ...

برطانیہ کا عظیم جوا

مروان بشارا برطانیہ نے یورپی یونین سے باہر آنے کا فیصلہ کر لیا۔ اب ہر ...

%d bloggers like this: