ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی تاریخ

ہوجو چانگ

 

آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا قیام 1944ء میں امریکہ اور برطانیہ کے مابین برٹین ووڈز کانفرنس کے نتیجے میں عمل میں آیا جس کے ذریعے بعداز زمانہ جنگ کے عالمی معاشی نظام کی تشکیل کی گئی تھی ۔ آئی ایم ایف کے قیام کا مقصد ایسے ممالک کو قرضے فراہم کرنا تھا جو تجارتی ادائیگی کے توازن میں خسارے سے دوچار ہوں تا کہ ان کی تجارتی ادائیگی کو بہتر کیا جا سکے۔ عالمی بینک کے قیام کا بنیادی مقصد یورپی ممالک کی تعمیر نو اور نئے آزاد ممالک کی معیشتوں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا تھا۔ ان مقاصد کی تکمیل کے لیے ضروری تھا کہ یہ ادارے ممالک کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر و ترقی میں معاون منصوبوں(مثلاً سڑکوں پل اور ڈیم وغیرہ ) کے لیے مالیات فراہم کرتے۔

Bretton-Woods1 - Copy

1982ء میں تیسری دنیا کے قرضوں کے بحران کے بعد آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے کردار میں ڈرامائی تبدیلی آ گئی ۔ ان اداروں نے نام نہاد ’’سڑکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرامز‘‘  کے ذریعے ترقی پذیر ممالک پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ۔ ایسی پالیسیاں مرتب کرائیں جو اس کے دائرہ اختیار سے باہر تھیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں ادارے ترقی پذیر ممالک کی اقتصادی پالیسیوں پر قابض ہو گئے۔ 1990ء کی دہائی میں ان اداروں نے ایجنڈے میں مزید توسیع کی  چنانچہ اب ان اداروں  جمہوریت ، حکومت کی عدم مرکزیت ، مرکزی بینک کی خود مختاری سمیت تمام معاملات میں مداخلت شروع کر دی۔

imf - Copy

عالمی بینک اور آئی ایم ایف نے دلیل پیش کی کہ اضافی اختیار کی مدد سے وہ ممالک کے قرضوں کا مسئلہ حل کر رہے ہیں ۔ اس منطق کی بنیاد پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ہر شعبے، یعنی ہر قسم کی معاشی سر گرمی پر اپنی شرائط لا گو کر سکتے ہیں، زمین کی زر خیزی سے لے کر نسلی و لسانی مسائل تک اور صنعتی مساوات سے لے کر ثقافتی اقدار تک ۔

آپ مجھے غلط نہ سمجھیں ، قرض دینے والا ہمیشہ شرائط عائد کرنے کا اختیار رکھتا ہے ۔ البتہ شرائط صرف ایسے معاملات تک محدود رہنی چاہئیں جن کا قرض کی ادائیگی یا واپسی کے پہلو سے براہ راست تعلق ہے ۔ ورنہ قرض خواہ مقروض کی زندگی کے ہر شعبے میں دخل انداز ہو سکتا ہے ۔

فرض کریں کہ میں ایک چھوٹے پیمانے کا کاروبار کرتا ہوں اور اپنے کار خانے کی توسیع کے لیے بینک سے قرض لینا چاہتا ہوں ۔ یہ ایک فطری امر ہو گا کہ میرا بینک قرض کے واپسی کے طریقہ کار کے حوالے سے یک طرفہ شرائط لاگو کرے۔ تا ہم بینک ایسی  شرائط عائد کر ے کہ میں اپنی خوراک میں چکنائی والی چیزیں کم کردوں کیونکہ اس سے میری صحت پر منفی اثرات پڑتے ہیں اور قرضہ واپس کرنے کی میری صلاحیت متاثر ہوتی ہے ۔پھر بینک یہ شرط بھی پیش کر دے کہ میں اپنے گھر میں ایک گھنٹے سے بھی کم وقت گزارا کروں۔

poverty_by_go1985a - Copy

ابتدا میں شرائط  معقول تھیں جن کا مقروض ملک کے تجارتی ادائیگی کے توازن سے براہ راست تعلق ہوتاتھا ۔تاہم بعد میں اس نے  حکومت کے بجٹ پر بھی شرائط عائد کرنا شروع کر دیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سرکاری اداروں کی نجکاری کی شرط بھی مسلط کی گئی ۔ یہ دلیل پیش کی گئی کہ ترقی پذیر ممالک میں سرکاری اداروں کے نقصان کی وجہ سے بجٹ کے خسارے میں اضافہ ہوتا ہے ۔ جب ایک دفعہ اس طرح کی منطق کا سلسلہ شروع ہوا تو پھر اس کا دائرہ کار پھیلتا چلا گیا ، چونکہ ہر چیز کسی دوسری چیز سے منسلک ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر 1997ء میں آئی ایم ایف نے کوریا میں نجی شعبے کی کمپنیوں کے لئے قرضے کی سہولیات محدود  کر دیں کیونکہ آئی ایم ایف کے مطابق قرضوں کی وسیع سہولیات کے بوجھ کی وجہ سے کوریا میں مالی بحران پیدا ہوا تھا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ امیر ممالک اس شرط پر آئی ایم ایف کو پیسے فراہم کرتے ہیں کہ جب مقروض ملک کو ایسی پالیسیاں بنانے پر مجبور کیا جائے جو امیر ممالک کے مفادات سے مطابقت رکھتی ہوں۔ مثلاً کوریا نے آئی ایم ایف کے ساتھ 1997ء میں معاہدہ کیا۔ معاہدے میں ایسی شرائط رکھی گئیں جن پر عمل درآمد کے لیے جاپان اور امریکہ بھی کوریا پر طویل عرصے تک دباؤ ڈال رہے تھے ۔ یہ پالیسیاں کچھ یوں تھیں، مخصوص جاپانی مصنوعات پر عائد پابندیوں کے خاتمے کا عمل تیز کیا جائے ، مالیاتی منڈیوں کو آزاد کیا جائے تا کہ بیرونی سرمایہ کار کوریا کی کمپنیوں کے اکثریتی حصص کے مالک بن جائیں۔

poverty - Copy

یہ کیسے ممکن ہے کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ایک عرصے سے مسلسل ایسی پالیسیوں پر اصرار کر رہے ہیں جن کا کوئی مثبت نتیجہ بر آمد نہیں ہوتا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان اداروں کا انتظامی ڈھانچہ یوں تشکیل دیا گیا ہے کہ ان کا جھکاؤ امیر ممالک کے مفادات کی طرف رہتا ہے ۔ ان کے فیصلوں کا تعین ہر ملک کے سرمائے کے تناسب سے ہوتا ہے (یعنی ایک ڈالر ایک ووٹ کا نظام )۔ اس کا مطلب ہے کہ ساٹھ فیصد ووٹ رکھنے والے امیر ممالک کو پالیسی سازی میں پورا اختیار حاصل ہوتا ہے جبکہ عملی طور پر امریکہ کے پاس 18اہم شعبوں میں عالمی فیصلوں کو مسترد کرنے کا اختیار بھی ہے ۔

ایسے انتظامی ڈھانچے کا ایک نتیجہ تو یہ نکلا ہے کہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف نے ترقی پذیر ممالک پر اشیا کے معیارسے متعلق ایسی پالیسیاں مسلط کر دیں جو امیر ممالک کے نکتہ نظر کے مطابق ہر جگہ یکساں طور پر لاگو کی جا سکتی ہیں۔ دوسرا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ان اداروں کی پالیسیاں درست بھی ہوں تو پھر بھی مقامی لوگوں کے لئے یہ بیرونی تسلط کی شکل ہی ہوتی ہیں اور ان پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کی جاتی ہے جس کی وجہ سے یہ ناکام ہو جاتی ہیں۔

imf-protest - Copy

بڑھتی ہوئی تنقید کی وجہ سے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے حال ہی میں چند نئے طریقے آزمائے ہیں ۔ ایک جانب تو انہوں نے ‘پرانی شراب نئی بوتلوں میں بھرنے’ کا کام شروع کیا ہے، یعنی سٹرکچرل ایڈ جسٹمنٹ پروگرام کا نام ’’تخفیف غربت اور ترقیاتی قرضے‘‘ رکھا دیا تو دوسری جانب معاشرے کے وسیع تر طبقات کی نمائندگی کرنے والی تنظیموں کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کی سنجیدہ کوششیں کی گئیں تاکہ این جی اوزکو چپ کرایا جا سکے۔ اس کے لئے ترقی پذیر ممالک میں این جی اوز کی کثیر تعداد کو عالمی بینک کی مالی معاونت دی گئی ۔

عالمی بینک اور آئی ایم ایف اپنے پروگراموں میں دعوے تو ہوئے لیکن بیشتر  ترقی پذیر ممالک علم و تحقیق کے میدان میں بہت پیچھے ہیں ۔  ترقی پذیر ممالک میں مقامی طور پر قابل قبول متبادل پالیسیوں کا سلسلہ بہت محدود ہوتا ہے بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ خود پالیسی بنا ہی نہیں سکتے۔  اس کے علاقہ ان ممالک میں اقتصادی شعبے میں کلیدی عہدوں پر عالمی بینک یا آئی ایم ایف کے سابقہ عہد یداران ہی تعینات ہوتے ہیں جو وہی کہتے ہیں جو یہ ادارے کہتے ہیں، پھر مقامی حل کیسا۔

 

یہ مضمون ’’ہوجو‘‘کے طویل مضمون کا تیسرا حسہ ہے، دوسرا حصہ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

x

Check Also

شامی بچے، ترک مہربان

ترکی کی اپوزیشن پارٹی  سی ایچ پی کی رپورٹ ترکی میں آنے والے شامی بچوں ...

شامی پنجرہ

جیمز ڈین سلو   شام کا بحران دن بد دن بد سے بد تر ہو ...

برطانیہ کا عظیم جوا

مروان بشارا برطانیہ نے یورپی یونین سے باہر آنے کا فیصلہ کر لیا۔ اب ہر ...

%d bloggers like this: