ہانگ کانگ سے ہم نے کیا سیکھا؟

ہوجو چانگ

30جون 1997ء کو ہانگ کانگ کو برطانوی گورنر کرسٹو فر پاٹن نے دوبارہ چین کی تحویل میں دے دیا۔ بہت سے برطانوی تبصرہ نگاروں نے اس سوال پر جھنجھلاہٹ کا اظہار کیا کہ چینی کمیونسٹ پارٹی ہانگ کانگ میں جمہوریت کا کیا حشر کر ے گی؟ حالانکہ برطانیہ نے ہانگ کانگ پر اپنے تسلط کے 152برسوں کے بعد 1994میں پہلی مرتبہ انتخابات کرائے تھے ،یعنی ہانگ کانگ کو چین کی تحویل میں واپس دینے سے صرف 3برس قبل ہانگ کانگ میں جمہوریت آئی تھی لیکن کسی نے بھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ آخر ہانگ کانگ پر برطانیہ کا تسلط کس طرح قائم ہوا؟

Hk1960c

1842ء میں افیون کی جنگ کے نتیجے میں  ہونے والے نانکنگ معاہدے کے بعد ہانگ کانگ برطانیہ کی کالونی بن گیا ۔ یہ انیسویں صدی کی سامراجی ثقافت میں بھی ایک انتہائی شرمناک واقعہ تھا۔ برطانیہ میں چائے کی روز بروز بڑھتی ہوئی طلب کی بنا پر اس کی چین کے ساتھ تجارت خسارے میں جا رہی تھی ۔ اس تجارتی خسارے کو پورا کرنے کے لیے برطانیہ نے بھارت میں پیدا ہونے والی افیون چین برآمد کرنا شروع کر دی ۔ چین میں افیون کی فروخت قانونی طور پر ممنوع تھی مگر  تجارتی توازن کی درستگی جیسے عظیم مقصد کے حصول کی راہ میں قانون حائل نہیں ہو سکتا تھا۔ جب 1841ء میں ایک چینی سرکاری عہدیدار نے افیون کی غیر قانونی کھیپ پکڑلی تو برطانوی سرکار کواس مسئلے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھٹکارا حاصل کرنے کا بہترین موقع ہاتھ آ گیا، یعنی اسے اعلان جنگ کا بہانہ مل گیا۔ اس جنگ میں چین کو بری طرح شکست ہوئی اور اسے مجبوراََ نانکنگ معاہدے پر دستخط کرنا پڑے جس کے تحت ہانگ کانگ برطانیہ کو پٹے پر دے دیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ چین محصولات عائد کرنے کے اپنے حق سے بھی دستبردار ہو گیا۔

یہ آزاد دنیا کے خود ساختہ پیشواؤں کا حقیقی چہرہ ہے جنہوں نے ایک ایسے ملک کے خلاف جنگ کی جو ان کی غیر قانونی افیون کی تجارت کی راہ میں حائل تھا ۔ درحقیقت برطانوی سرکار کے تحت 1870ء سے 1913ء کے دوران سرمائے ، اشیا اور انسانوں کی آزادانہ نقل و حرکت (عالمگیریت کا پہلا دور) آزاد منڈی کی طاقت کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ یہ آزاد نقل و حرکت برطانوی فوجی طاقت کی مرہون منت تھی۔

Battle_of_HK_06

برطا نوی مورخ نائل فرگوسن نے اپنی مشہور کتاب ”امپائر ” میں برطانونی راج کی بداعمالیوں، بشمول جنگ افیون کا دیانتداری سے اعتراف کیا ہے اگرچہ فرگوسن کے مطابق ”برطانوی سلطنت مجموعی طور پر بہتر تھی کیونکہ یہ آزاد تجارت کو فروغ دینے کا سستا ترین طریقہ تھا جس سے ہر ایک کو فائدہ ہو ا۔”

ایک طرف غریب ممالک کو نو آباد یاتی نظام اور غیر منصفانہ معاہدوں کے شکنجے میں پھنسا کر آزادنہ تجارت پر مجبور کیا جا رہا تھا جبکہ دوسری جانب امیر ممالک خود بلند شرح محصول، خاص طور پر صنعتی محصول کی پالیسی برقرار رکھے ہوئے تھے ۔ برطانیہ میں اس اقدام کی وجہ یہ تھی کہ اس کی معاشی بالا دستی بتدریج ختم ہو رہی تھی کیونکہ اس کھیل میں برطانیہ کے حریف ممالک، خصوصاً امریکہ اپنی صنعت کے فروغ کے لیے مدافعتی پالیسیوں سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔

maxresdefault

ایسی وجوہات کے باعث عالمگیریت کے انیسویں صدی کے آواخر اور بیسویں صدی کے ابتدائی عرصے پر محیط ‘پہلے دور’ کی تاریخ اب دوبارہ لکھی گئی تا کہ یہ موجودہ نو آزاد عقائد یا نظریات کے عین مطابق نظر آئے ۔تاہم اب تاریخ میں موجود سامراجی عوامل کا کوئی ذکر نہیں کیا جا تا۔ یہ نہیں بتایا جاتا کہ اصل میں کیا ہوا، بس کہا جاتا ہے کہ  آزاد تجارت کرو اور فائدہ اٹھاؤ حالانکہ اب اس نظریے کے تحت ترقی ممکن ہی نہیں رہے گئی ہوئی

اس طویل مضمون کی پہلی قسط پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

x

Check Also

شامی بچے، ترک مہربان

ترکی کی اپوزیشن پارٹی  سی ایچ پی کی رپورٹ ترکی میں آنے والے شامی بچوں ...

شامی پنجرہ

جیمز ڈین سلو   شام کا بحران دن بد دن بد سے بد تر ہو ...

برطانیہ کا عظیم جوا

مروان بشارا برطانیہ نے یورپی یونین سے باہر آنے کا فیصلہ کر لیا۔ اب ہر ...

%d bloggers like this: