جمعرات کو ہونے والے ریفرنڈم میں چار کروڑ 60 لاکھ افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ سیاستدان ووٹڑوں کو قائل کرنے کی آخری کوشش کر رہے ہیں۔
حالیہ انتخابی جائزوں میں رجحان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کے سینیئر ووٹروں میں یورپی یونین سے الگ ہونے کی مہم کی حمایت کے امکانات زیادہ ہیں اسی لئے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے بزرگ عوام کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ “جب آپ فیصلہ کریں۔ چاہے وہ برطانیہ کے یورپی یونین میں رہنے یا الگ ہونے کے بارے میں ہے، تو اپنے بچوں اور ان کے بچوں کی اُمیدوں اور خوابوں کے بارے میں ایک مرتبہ ضرور سوچیے گا۔”
انھوں نے خبردار کیا ہے کہ جمعرات کے ریفرنڈم کے نتائج ‘ناقابل واپسی’ ہو جائیں گے۔
ڈیوڈ کیمرون کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر میں اس پوری مہم کو ایک لفظ میں بیان کروں تو وہ لفظ ہو گا ’اکٹھے‘۔ ہم اکٹھے دہشت گردی اور موسمی تبدیلی کا مقابلہ بہتر طور پر کر سکیں گے۔ اپنی معیشت کو بہتر بنا سکیں گے۔‘
تاہم یورپی کمیشن کے صدر نے ڈیوڈ کیمرون کے خیالات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ اگر برطانیہ یورپی یونین سے باہر نکلنے کے حق میں ووٹ دیتا ہے تو ’اس کے بعد کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے‘۔
لندن کے سابق میئر نے پورے برطانیہ میں جلسے کئے ہیں ۔ انہوں نے استدعا کی کہ ’اپنے ملک میں یقین رکھیں‘ اور اس موقعہ کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔
ان کا کہنا تھا ’وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے دوستوں اور اتحادیوں کے ساتھ مکمل طور پر نیا تعلق بنایا جائے۔ وقت آ گیا ہے کہ جمہوریت کے لیے آواز اٹھائی جائے اور یورپ کے لاکھوں افراد ہم سے متفق ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ناکام ہوتی اور خراب ہوتی یورپی یونین سے علیحدہ ہوا جائے۔‘