ٹیوٹا سے ہم نے کیا سیکھا؟

ہوجو چانگ

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک ترقی پذیر ملک کے گاڑی ساز ادارے نے اپنی پہلی گاڑی امریکہ برآمدکی ۔ اُس دن تک یہ چھوٹی سی کمپنی صرف گھٹیا معیار کی چیزیں بناتی رہی تھی جنہیں امیر ممالک کی معیاری اشیا کی غیر معیاری نقل قرار دیا جا سکتا تھا ۔ یہ گاڑی بھی ایسی عمدہ اور معیاری نہ تھی۔ اسے برے انداز سے جڑے پرزوں کا شاہکارکہا جا سکتا تھا یا پھر اسے چار پہیوں کے اوپر کھڑا راکھ دان بھی کہا جا سکتا تھا۔ مگر یہ لمحہ اُس ملک اور گاڑی بنانے والوں کے لئے باث فخر تھا ۔

exports_1574623i

پھر وہی ہوا کہ یہ گاڑی منڈی میں نا کام ہو گئی۔ بہت سے اخباروں کے مطابق یہ گاڑی انتہائی بے ڈھنگی تھی ۔ لوگ اپنے پیسے ایسے ملک کی اشیا  پر ضائع نہیں کرتے جو اپنے برے معیار کی وجہ سے مشہور ہو۔ اس نا کام تجربے کے بعد اُس ملک کے شہریوں میں ایک نیا بحث مباحثہ شروع ہو گیا۔

 

toyopet

شہریوں کی رائے تھی کہ اس کمپنی کو اپنا کاروبار سادہ ٹیکسٹائل مشینری بنانے تک محدود رکھنا چاہیے کیونکہ ریشمی کپڑے ملک کی اہم بر آمدات میں شامل تھے ۔ ویسے بھی اگر 25سال کی کوششوں کے بعد بھی کمپنی ایک اچھی گاڑی بنانے میں ناکام ہو گئی تو پھر مستقبل کے بارے میں شبہات فطری عمل تھا۔ حکومت نے گاڑی ساز کمپنی کو کامیابی کے تمام مواقع فراہم کیے۔ غیر ملکی گاڑٰیوں پر ٹیکس لگائے تاکہ اپنی کمپنی کے منافع کو یقینی بنایا جا سکے لیکن تمام معاونت کے باوجود کمپنی دس سال کے اندر ہی بحران میں آ گئی اور سرکاری وسائل سے چلنے لگی۔ ناقدین نے اصرار شروع کر دیا کہ غیر ملکی گاڑیوں کی برآمد سے پابندی ہٹائی جائے اور 20سال سے بند پڑی غیر ملکی فیکٹریوں کو کام کرنے کی اجازت دی جائے ۔مخالفین نے بات نہ مانی کیونکہ ان کے مطابق گاڑیوں جیسی اہم صنعت کو فروغ دیئے بغیر کوئی ملک اہم معاشی مقام حاصل نہیں کر سکتا اور اس کمپنی کو ایک مقبول گاڑی کی تیاری کے لئے مزید کچھ وقت ملنا چاہیے۔

corrolla-history

یہ 1958ء کی بات ہے اور یہ ملک جاپان تھا۔ گاڑی ساز کمپنی کا نام ”ٹویوٹا”اور گاڑی کا نام ”ٹو یو پٹ” تھا۔ ٹویوٹانے کاروبار کا آغازٹیکسٹائل مشینری کی پیداوار سے کیا( ٹو یوٹا آٹو میٹک لوم) جبکہ گاڑی بنانے کا کام 1933ء میں شروع کیا گیا۔ جاپانی حکومت نے 1939ء میں جنرل موٹرز اور فورڈ پر پابندی عائد کی ، پھر ٹویوٹا کو دیوالیہ سے بچانے کے لیے 1949ء میں بینک آف جاپان نے رقم کا بندوبست کیا۔ آج جاپانی گاڑی سکاٹش سالمن مچھلی یا فرنچ وائن کی طرح فطرت سے قریب تر تصور کی جاتی ہے۔ گو نصف صدی پہلے جاپانیوں سمیت پہلے  بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ جاپان میں گاڑی کی صنعت نہیں ہونا چاہیے۔

ٹویوٹا کمپنی کی پہلی ناکامی کے 50سال بعد ٹویوٹا کا لگژری برانڈ لیگزز  عالمگیریت کی علامت بن گیا۔ امریکی صحافی فریڈمین  بھی اسی سے متاثر ہوا اور اپنی معروف ترین کتاب میں لکھا کہ آدھی دنیا ایک بہتر لیگزز بنانے ، اپنی معیشتوں کی تجدید، تنظیم اور نجکاری کرنے پر تلی ہوئی ہے تا کہ وہ عالمگیریت یا نئے ابھرتے ہوئے عالمی نظام میں ترقی کر سکے جبکہ باقی آدھی دنیا یا کسی ایک ہی ملک کا نصف حصہ یا ایک ہی شخص کا نصف وجود، ابھی تک اس جھگڑے میں اُلجھا ہوا ہے کہ کون کس زیتون کے درخت کا مالک ہے ؟

progressive-ls

فریڈ مین کے مطابق زیتون کے درختوں کی لڑائی میں پھنسی دنیا کے ممالک اس وقت تک لیگزز والوں کی دنیا کا حصہ بننے کے قابل نہیں ہوں گے جب تک وہ اُن مخصوص اقتصادی پالیسیوں کو نہیں اپناتے یعنی عالمگریت کے فلسفے کو ۔ اس فلسفے کا مطلب ہے کہ ملک کے اندر سرکاری اداروں کی نجکاری کرنے، افراط زر کی شرح میں کمی کرنے ، سرکاری اداروں یا نوکر شاہی کے حجم میں کمی کرنے، بجٹ کو متوازن بنانے، تجارت سے پابندیاں اٹھانے ، بیرونی سرمایہ کاری سے سرکاری مداخلت کے خاتمے، مالیاتی منڈیوں سے پابندیوں کے خاتمے ، کرنسی کو قابل قدر بنانے ، بدعنوانی میں کمی کرنے اور پنشنوں کی سرکاری خزانے سے ادائیگی کے خاتمے کی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے ۔

16-02-02-lexus-lx-sales-report-january

اگرچہ حقیقت یہ ہے کہ اگر جاپانی 1960ء کی دہائی میں ہی آزاد تجارت کے نظریات کی پیروی کرتے تو پھر کوئی لیگزز وجود میں نہ آتی اور ٹویوٹا آج زیادہ سے زیادہ کسی مغربی گاڑی ساز ادارے کی کم مرتبہ شراکت دار ہوتی یا ممکنہ طور پر اس کا نام و نشان ہی نہ ہوتا ۔ یہی بات پوری جاپانی معیشت کے بارے میں صادق ہے ۔ اگر جاپان ابتدا ہی میں فریڈ مین کے نظریے میں سما جاتا تو آج 1960ء کی دہائی کی طرح ہی تیسرے درجے کا صنعتی ملک ہوتا اور اس کی قومی یا فی کس آمدنی چلی ، ارجنٹائن یا جنوبی افریقہ کے برابر ہوتی ۔ تب جاپان کی یہ حالت ہوتی تھی کہ جاپانی وزیر اعظم کو فرانس کے صدر چارلس ڈی گال نے ” ریڈیو بیچنے والا ” کہہ کر بڑی حقارت سے دھتکار دیا تھا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر جاپان نے ابتدا میں فریڈ مین کے مشورے پر عمل کیا ہوتا تو اس وقت یہ لیگزز گاڑی کا برآمد کنندہ نہیں بلکہ اب تک اس مخمصے میں الجھا ہوتا کہ کون سادرخت کس کا ہے ؟

x

Check Also

شامی بچے، ترک مہربان

ترکی کی اپوزیشن پارٹی  سی ایچ پی کی رپورٹ ترکی میں آنے والے شامی بچوں ...

شامی پنجرہ

جیمز ڈین سلو   شام کا بحران دن بد دن بد سے بد تر ہو ...

برطانیہ کا عظیم جوا

مروان بشارا برطانیہ نے یورپی یونین سے باہر آنے کا فیصلہ کر لیا۔ اب ہر ...

%d bloggers like this: