سوات میں طالبان کے زور پکڑنے کے بعد بی بی سی پر گل مکئی کے فرضی نام سے ایک بچی کی ڈائری خوب مشہور ہوئی، بعد میں اس بچی نے دنیا میں ملالہ یوسفزئی کے نام سے خوب شہرت سمیٹی۔ جرمنی میں بھی ایسی ہی ایک بچی این فرینک تھی جس نے دوسری عالمی جنگ میں شہرت حاصل کی تھی۔
این فرینک ایک بار پھر خبروں کی زینت بن رہی ہے اور اس کی وجہ ان کی ایک8 سطری نظم ہے جسے نیلامی کیلئے پیش کیا گیا تو وہ ڈیڑھ لاکھ ڈالر میں نیلام ہوئی۔
ہالینڈ میں منعقد ہونے والی اس نیلامی میں اس وقت کی سکول کی طالبہ این فرینک کی نظم کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ نظم 1942 میں لکھی گئی تھی جب این فرینک کے اہل خانہ نازی افواج سے بچنے کیلئے روپوش ہورہے تھے۔
این فرینک نے یہ نظم اپنی سہیلی کرسٹین مارسن کیلئے تحریر کی تھی۔ فریم میں جکڑی گئی ہاتھ کی یہ تحریر جب نیلامی کیلئے پیش کی گئی تو نیلام گھر انتظامیہ نے اس کی قیمت 30 سے50 ہزار یورو لگائی تھی۔
بولی کا اختتام 1لاکھ 40 ہزار یورو پر ہوا۔
جرمنی کے ایک یہودی گھرانے میں جنم لینے والی این کو ان کی ڈائریز کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ اس نظم کو تحریر کرنے کے چار ماہ بعد ان کے گھر والے ایک خفیہ فلیٹ میں چھپ گئے تھے۔
اب یہ نظم نیلامی کیلئے کرسٹین کی بڑی ہمشیرہ جیکولین نے پیش کی تھی۔ ان کے مطابق کرسٹین 2006 میں انتقال کر چکی ہیں اور وہ اسے محفوظ کئے جانے کے لائق سرمایہ نہیں سمجھتی تھیں۔
کرسٹین نے یہ نظم اپنی ڈائری سے پھاڑ کے 1970 میں جیکولین کو دے دی تھی کیونکہ اس کی ایک سطر میں جیکولین کو بھی مخاطب کیا گیا تھا۔
کرسٹین بعدازاں نازی کیمپ میں 15 برس کی عمر میں ماری گئی تھی۔ ان کے والد نے بعد ازاں ان کی ڈائریوں کو شائع کروایا۔ ہولوکاسٹ کے حوالے سے ان ڈائریوں کو اہم دستاویز کی حیثیت حاصل ہے۔