مرکل، لبرل مغرب کی آخری امید

ایلسن سمال اور اسٹوین اینلارجر (نیویارک ٹائمز)

 

اینگلا مرکل اب یورپ، نیٹو اور لبرل دنیا کی واحد طاقتور سیاسی رہنما  ہیں۔ ٹرمپ کی فتح کے بعد سب کی نظریں مرکل پر  ہیں لیکن  ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ گیارہ سال تک طاقت میں رہنے کے بعد اب وہ تھک چکی ہیں اور یوں لگتا ہے کہ انہیں ہر طرف سے گھیرے میں لے لیا گیا ہے۔

مرکل کا سامنا بھی اب انہی قوتوں سے ہے جنہوں نے ٹرمپ کو جیتوایا، بریگزٹ کو کامیاب بنایا اور اب فرانس کے صدارتی انتخاب بھی جیتنے والے ہیں، جرمنی میں بھی انہی قوتوں نے ریاستی انتخابات میں تاریخی فتح حاصل کی ہے۔

مرکل کو روسی آشیر باد سے چلنی والی دائیں بازو کی تحریک کا سامنا ہے۔ روس نے یورپ سے اپنے انداز میں بدلہ لیا اور اب دائیں بازو کی تحریک اس کی سب سے بڑی حامی بن گئی ہے۔ ادھر امریکا میں بھی ٹرمپ کھل کر پیوٹن کی حمایت کر رہے ہیں، ایسے میں ماسکو پر عالمی پابندیاں برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔

مبصر سیمن ٹل فورڈ کا کہنا ہے کہ دنیا کو جرمنی کی شاید اس سے زیادہ ضرورت کبھی نہیں تھی۔ خوشی کی بات ہے کہ مرکل اس وقت جرمنی میں موجود ہیں اور  امید ہے کہ وہ اس مشکل وقت میں کھڑی ہو کر دنیا کو مسائل سے نکالیں گی۔

پورے یورپ کی نظریں اب امیر ترین ملک جرمنی پر ہیں کہ وہ انہیں معیشت، مہاجرین اور ناراض ووٹروں کے مسائل سے کیسے نکالتا ہے۔ اٹلی اور اسپین سیاسی طور پر غیر مستحکم ہیں، آسٹریلیا بھی ایک سخت گیر دائیں بازو کے صدر کو اگلے ماہ منتخب کر لے گا، ایسے میں مرکل کو برطانیہ سے بریگزٹ پر مذاکرات بھی کرنے ہیں، سمجھ نہیں آتی کہ مرکل اس تیزی سے تبدیل ہوتی دنیا میں لبرل مغرب کو کیسے بچائیں گی؟

ٹرمپ نے واضح کر دیا ہے کہ سب سے پہلے امریکا، ایسے میں ان کی جانب سے نیٹو پر سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں، اب شاید مرکل کو خود ہی یورپ کی سیکورٹی کا بھار اٹھانا پڑے۔

مرکل کو صدر اوباما اور فرانس کی حمایت حاصل رہی لیکن اب اوباما گئے اور ہولنڈے بھی سیاسی ساکھ کھو چکے ہیں، ذرائع کے مطابق مرکل اس وجہ سے بہت پریشان ہیں، اب انہوں نے انتہائی محتاط رویہ اپنا لیا ہے کیونکہ یورپ میں مہاجرین کو آنے کی اجازت دینے کے بعد ان کی شہرت میں بھی کمی ہوئی ہے۔ تاہم پھر بھی ان کی حامی چاہتے ہیں کہ وہ چوتھی بار بھی الیکشن لڑیں جس کا فیصلہ دسمبر میں ہو گا۔

ان کی زندگی پر کتاب لکھنے والے مصنف اسٹیفن کارنلیس کا کہنا ہے کہ وہ اب تنہا ہیں جس کی وجہ سے وہ بیک وقت کمزور اور مضبوط بھی ہیں۔ وہ استحکام کی ایک ایسی دیوار ہیں جس پر سب کی نظریں ہیں کیونکہ لوگ اب انہی سے ٹیک لگائےکھڑے ہیں۔

جرمنی سمیت تمام یورپ کی دائیں بازو کی تحریک کا کہنا ہےکہ مرکل کا جرمنی  آمر ہے اور تمام قوانین خود بنا رہا ہے۔ تاہم مرکل نے بریگزٹ اور ٹرمپ کی فتح پر انتہائی مدبرانہ انداز اپنایا اور دونوں مواقع پر بظاہر فیصلہ خوشی سے تسلیم کیا۔

مرکل اس وقت یورپ میں دائیں بازو کو روکنے کی واحد امید ہیں۔ اگر انہوں نے معاشی اصلاحات کا منصوبہ روک دیا  تو اس دائیں بازو کو روکا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے جرمنی کو اپنے خزانے کا منہ کھولنا ہو گا۔ اسے فرانس، اٹلی، پولینڈ سمیت کئی یورپی ممالک کی حکومت کی مالی امداد کرنا ہو گی۔

اس مالی امداد کے نتیجے میں یورپ معاشی اصلاحات کا ایجنڈا ختم کر کے  ایک بار پھر عوام کو سماجی بہبود فراہم کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ تاہم اگر جرمنی ایسا کرتا ہے تو پھر مرکل کے خلاف اپنی پارٹی کے اندر ہی دائیاں بازو اتنا مضبوط ہو جائے  گا کہ جرمنی میں انہیں روکنا ناممکن ہو گا۔  اب دیکھنا ہے کہ مرکل کا جرمنی کیا کرے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: