فیض احمد فیض: متبادل بیانیہ کس نے تباہ کیا؟

تحریر:یاسر جواد

faizمیری عمر کے لوگ شاید اس آخری پُشت سے تعلق رکھتے تھے جنھوں نے تاریخ کی ایک تیز ترین (الیکٹرانک) تبدیلی کے دور سے کچھ پہلے ہوش سنبھال لیا تھا، پھر اُس تبدیلی کو حیرت بھری نظروں سے دیکھا، سہا، اُس کا حصہ بنے اور پھر اُس میں جذب ہونے یا نہ ہونے کے تذبذب کا بھی شکار ہیں۔

1980ء کی دہائی کے آخری دو برسوں میں یو ایس ایس آر کی شکل میں ایک سورج بدستور روشن تھا، امیدوں اور آرزوؤں اور خوابوں کا ایک سمندر کہیں نہ کہیں مچلتا مگر آنکھوں کے عین سامنے معلوم ہوتا تھا۔ گو کہ روایتی طور پر پاکستان میں ریاستی نظریہ سازی اور بھونڈی جعلی تاریخ کا ایک متبادل بیانیہ ہمیشہ نحیف آوازوں تک محدود رہا اور بائیں بازو کے یا ترقی پسند گروپس کی موجودگی حقیقتاً کبھی کسی کے لیے عملاً پریشانی کا باعث نہیں بنی، لیکن غلاظت اور جھوٹ بھری ریاستی سوچ کا ایک متبادل ضرور فراہم کرتی تھی، اور خواہش مند اس کی طرف جا سکتے تھے۔

ذاتی تجربے کے حوالے سے بات کروں تو فیض امن میلہ میری یادداشت کا پہلا ایسا واقعہ تھا جس نے مجھے براہ راست ایک نئی دنیا میں اٹھا کر پھینکا، اور یقیناً اور بھی بہت سوں کو پھینکا ہو گا۔ یہ شاید 1988ء کا فیض میلہ تھا، ریلوے سٹیڈیم لاہور میں۔ ایک پرخروش اور پر اُمنگ منظر: ہر طرف سرخ جھنڈے، چھوچھلزم آوے ای آوے کے نعرے، ٹولیوں کی شکل میں رقص کرتے آتے ہوئے محنت کش، مختلف ٹریڈ یونینز اور تنظیموں کے ٹولے اپنے اپنے بینرز کے ساتھ، اطراف میں فیض کے کالے سفید پوسٹرز اور تصاویر وغیرہ سے سجے ہوئے سٹال، کتابوں کے عارضی سٹال۔ نہ امیر فیشن ایبل لڑکیوں کے آنچلوں کا  غلبہ تھا نہ بڑی بڑی گاڑیوں کے لیے پارکنگ کے انتظامات۔ اس وقت تک زیادہ تر ’’سول سوسائٹی‘‘ موٹر سائیکلوں پر تھی اور انھیں این جی اوز کے خوش قسمت پر نہیں لگے تھے۔ زیادہ تر شرکاء کے لیے ٹریکٹر ٹرالیاں اور بسیں یا ویگنیں ہی ٹرانسپورٹ کا مرکزی ذریعہ تھیں۔ faiz-2اس وقت لاہور میں ترقی پسند علم و ادب کی واحد دکان پیپلز پبلشنگ ہاؤس کا سٹال بھی شاید وہاں موجود تھا۔ فریڈرک اینگلز کی خاندان ذاتی ملکیت اور ریاست، منتخب تصانیف کی اکا دکا جلدیں، کمیونسٹ مینی فیسٹو، مبارک علی اور عبداللہ ملک کی تاریخ اور آگہی کے موضوع پر کتب…….۔ پیچھے مڑ کر دیکھیں اور غور کریں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے اُس دور کا سارا متبادل بیانیہ (ریاست کے وضع کردہ نظریات اور تاریخ کا نقیض) فیض اور اس کی یاد میں منعقد ہونے والے اِس سالانہ میلے پر ہی مرکوز تھا۔

اُس وقت تک یو ایس ایس آر میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ یا تبدیلیوں کی خبریں اتنی عام نہیں تھیں، لیکن 1991ء کے بعد یہ کافی واضح ہونے لگیں۔ بائیں بازو اور ترقی پسند سیاسی تنظیموں اور سٹڈی گروپس تک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگے۔ پھر معلوم نہیں کہ کیسے فیض امن میلہ بھی جیسے اس انحطاط کا مظہر بن گیا۔ پھر پتہ چلا کہ فیض میلہ لارنس باغ میں ہو گا، جو بنیادی طور پر میوزک کنسرٹ قسم کی کوئی چیز تھا، البتہ داخلے پر کوئی پابندی نہ تھی۔ بعد کے برسوں میں تنزلی یا ارتقا کا عمل اور بھی تیز ہو گیا، اور یہ عوامی حیثیت حاصل کر چکا میلہ کبھی کسی ہال اور کبھی کسی بند احاطے تک محدود ہوتے ہوتے تقریباً ایک بورژوا سرگرمی بن گیا۔ اب اس کی حیثیت کشیدہ کاری کرنے والی محنت کش خواتین کی اشیا امیر طبقے میں اچھے داموں فروخت کرنے کے لیے لگائی گئی نمائش سے زیادہ نہیں رہی۔

چاہے فیض نے کوئی متبادل بیانیہ دیا یا نہیں، لیکن جتنا بھی متبادل بیانیہ تھا، وہ سب کا سب اس کے گرد جمع ہو گیا تھا۔ آج ہمارا معاشرہ اور حتیٰ کہ سول سوسائٹی بھی جس ناپید بیانیے کی کھوج میں ہے وہ اُس نے خود بڑی محنت سے کھویا تھا۔

سابق فوجی آمر پرویز مشرف نے ایک انٹرویو میں اپنا پسندیدہ ترین گیت ’’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘ بتایا تھا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں اور ایسا بے سبب نہیں ہوا۔ اس کے پیچھے ایک باقاعدہ کوشش کارفرما ہے جس کے ذریعے فیض کے علاوہ منٹو اور ن م راشد کو بھی ’’پاکستانی اسلامی تشخص‘‘ دیا گیا۔ لیکن شاید فیض امن میلے کے منتظمین یا کرتا دھرتا اس کے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ اسی کے نتیجے میں فیض جو ایک تبدیلی کا استعارہ اور خوابوں کی آماجگاہ تھا، اب اس کی جگہ احمق ترین قوتوں اور بیانیہ دانوں نے لے لی ہے، جن کے نام لینے کی بھی ضرورت نہیں۔ شاید مابعد جدیدیت کے سہولت بخش نظریے نے فیض جیسوں کو (جو بدستور بامعنی ہیں) ان معانی سے محروم کر دیا ہے جو ان کی اصل شناخت تھے۔

فیض کے داماد جو ہمیشہ ان کا کچھ پنجابی کلام پڑھ کر سننے والوں کو محظوظ کیا کرتے ہیں، کوئی دس سال قبل اکادمی ادبیات لاہور کے دفتر میں فیض پر ہونے والی ننھی سی تقریب میں موجود تھے۔ تقریب کے بعد سیڑھیاں اترتے ہوئے راقم الحروف نے ان سے یہی سوال پوچھا، کہ فیض امن میلہ ریلوے سٹیڈیم سے لارنس باغ اور پھر الحمرا ہال تک کیوں چھوٹا ہوتا گیا؟ وہ کہنے لگے: بھئی فیض لوگوں کا ہے، وہ جیسے چاہیں اس کا میلہ منائیں، ہم تو بس مجاور ہیں۔ آج لگتا ہے کہ ان کی کہی ہوئی بات کا کم ازکم دوسرا حصہ ضرور درست تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: