برطانوی حکومت ہائی کورٹ کی جانب سے بریگزٹ مخلاف فیصلے کے بعد اب سپریم کورٹ میں چلی گئی ہے۔ اس کیس کی سماعت دسمبر میں ہو گی ۔
ہائیکورٹ نے حکم دیا ہے کہ تھریسا مے کی حکومت بریگزٹ کے لئے آرٹیکل 50کا اطلاق نہیں کر سکتی۔ پارلیمانی جمہوریت میں ریفرنڈم سے زیادہ طاقتور پارلیمنٹ ہوتی ہے۔ اگر حکومت یورپی یونین کو چھوڑنا چاہتی ہے تو پہلے پارلیمنٹ سے اجازت لے۔
سپریم کورٹ کی جج برینڈا ہیل نے کوالالمپور میں ایک کانفرنس کے دوران اس کیس پر اپنا بیان دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیس کے تمام فریق متفق ہیں کہ کسی بھی صورت ریفرنڈم پر عمل درآمد کے لئے قانونی پابندی نہیں ہوتی۔ یہ ایک ایسی مشاورت ہے جس پر عمل ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔
برینڈا ہیل ان 11ججوں میں سے ایک ہیں کہ جنہوں نے اس اپیل کی سماعت کرنا ہیں۔ یہ کیس اب صرف ایک آئینی تشریح کا معاملہ نہیں بلکہ مقننہ اور عدلیہ میں اختیارات کے توازن کو بھی طے کرے گا۔ آرٹیکل 50کے اطلاق سے منسلک ہائیکورٹ کا فیصلہ اب برطانیہ کی توجہ کا مرکز ہے۔
یہ اپیل حالیہ تاریخ میں برطانیہ کا اہم ترین آئینی مقدمہ ہے۔ ریفرنڈم میں عوام فیصلے کے بعد وزیراعظم تھریسا مے نے ’’شاہی طاقت‘‘ نامی قانون کا استعمال کرنا تھا جس کے تحت وزیراعظم پارلیمنٹ کو بائی پاس کر کے کوئی بھی فیصلہ کر سکتا ہے۔تاہم عدالت نے تھریسا مے کی جانب سے ’’شاہی طاقت ‘‘ کے استعمال کا اختیار واپس لے لیا ہے اور انہیں پارلیمنٹ میں جانے کا پابند بنایا ہے۔
پانچ دسمبر سے شروع ہونے والی سماعت سے قبل کانفرنس کے شرکا سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ برطانیہ کی 51.8فیصد آبادی نے یورپی یونین چھوڑنے کا فیصلہ سنایا ہے۔ تاہم ایسا کوئی بھی ریفرنڈم پارلیمنٹ کو پابندی نہیں بنا سکتا۔ اس مقدمے میں سب سے اہم پیش رفت یہ ہے کہ اب حکومت نے یہ ضد چھوڑ دی ہے کہ اس معاملے پر عدلیہ سماعت نہیں کر سکتی۔
اس کیس پر 8دسمبر تک سماعت جاری رہے گی اور مہینے کے اختتام پر فیصلہ آ جائے گا۔