چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ عدالت کا تاثر درست ثابت نہیں ہوا، بہت زیادہ دستاویزات آگئی ہیں۔ اصل اور نقل کا پتا ہی نہ چلے کہ صحیح دستاویز کونسی ہے؟۔ اس طرح تو کیس کا فیصلہ چھ ماہ میں بھی ممکن نہیں۔ صرف لندن میں خریدے گئے فلیٹس پر فوکس کریں گے۔
عدالت نے پانامہ کیس کی سماعت سترہ نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے فریقین کو ایک دوسرے کے ساتھ دستاویزات کے تبادلے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 1947ء سے تحقیقات شروع ہوں تو بیس سال لگیں گے۔
طارق اسد ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ بہت اہم کیس ہے، تیزرفتاری سے چلانے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ہمارا کام ہے، انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے۔ طارق اسد صاحب کیا آپ اس عدالتی کارروائی کو سائیڈ ٹریک کرنا چاہتے ہیں۔؟
پانامہ لیکس پراتنی درخواستیں آرہی ہیں شایدالگ سےسیل کھولناپڑے، دستاویزات آ گئی ہیں، اگلا مرحلہ کمیشن کی تشکیل ہے۔
کرپشن کی تحقیقات سپریم کورٹ کا کام نہیں ہے۔ کسی اے بی سی نے کرپشن کی ہے تو نیچے عدالتیں موجود ہیں۔