پاکستان کے سیاسی حالات، تارکین بھی پریشان

سینئر صحافی طاہر قیوم صاحب کئی دہائیوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ سیاحت کے شوقین ہیں اور بیرون ملک کا سفر کرتے رہتے ہیں۔ ان دنوں وہ یورپ کے دورے پر نکلے۔ اس دوران انہوں نے یورپ کو ایک پاکستانی کی نظر سے دیکھا اور دنیا ٹوڈے کے لئے لکھا ہے۔ یہ سفرنامہ قسط وار شائع کیا جا رہا ہے۔

یورپی پارلیمنٹ اور کچھ تاریخی عمارتوں کے گرد آوارہ گردی اور مارکیٹ میں خریداری کے بعد ہاسٹل پہنچا تو بدن تھکاوٹ سے چور تھا۔

مسلمان ہیں، پر درد دل نہیں

ریسٹورنٹ پہنچ کر پتہ چلا کہ کچھ کھانے پینے کو میسر نہیں، آپ کو چند گھنٹے انتظار کرنا پڑے گا۔ سو ریسٹورنٹ میں لگی مشین میں 2 یورو ڈال کر پانی کی بوتل نکالی اور پھر مشین سے ہی 2 یورو سے کافی کا ایک کپ وصول کرکے باہر لان میں جا بیٹھا۔

بارش کی ہلکی ہلکی پھوار نے کافی کا مزا دوبالا کردیا۔ اوپر سے سگریٹ کے کش سے ہر منظر ہی دلکش سے لگا، کافی دیر لان میں لگے فوارے کو دیکھتا رہا جس میں ایک ماں نے بچے کو اٹھایا ہوا تھا اور پتھر سے بنے اس بچے کے منہ سے پانی کا فوارہ پھوٹ رہا تھا۔

پاکستان میں فیملی سے بات کررہا تھا کہ روم میٹ آگیا، جو شاید واپسی کی تیاری میں تھا۔ اسے انتظار تھا کہ کب بارش تھمے اور وہ اپنے وطن فرانس واپسی کے لیے روانہ ہو۔

ایڈرین شاید ایسا ہی کوئی بھلا سا نام تھا اس کا۔ میرا بھی اگلا سفر فرانس کا ہی تھا، جس کا میں نے اسے بتایا تو اس نے بغیر پوچھے ہی مجھے فرانس کے بارے میں گائیڈ کردیا کہ فلاں بس پر بیٹھنا، وہاں سے فلاں ٹرین ملے گی، کسی دوسری میٹرو یا ٹرین پر نہ بیٹھنا، تمہیں ایئرپورٹ سے ہی ایم 4 ملے گی، سب سے سستی ہے، تمہیں منزل تک پہنچا دے گی، فلاں جگہ سے کھانا اچھا اور سستا مل جائے گا، فلاں فلاں۔

تارکین وطن شور بہت کرتے ہیں

یورپی پارلیمنٹ میں ملالہ

ہاں یہ ہے کہ میں نے یورپ میں پاکستانیوں جیسی اپنائیت نہیں دیکھی، شاید مجھے توقع تھی کہ ایڈرین مجھے کہے گا کہ میں فرانس میں اس کے پاس آﺅں، وہ مجھے گھمائے گا، پھرائے گا، کھانے کھلائے گا۔ لیکن ایسا کچھ بھی میری توقع کے مطابق نہیں ہوا، یہ صرف ایڈرین نہیں، یورپ میں جہاں، جہاں، جس، جس سے ملا، وہ اچھے انداز میں ملا لیکن اپنائیت نام کی چیز مجھے کہیں نظر نہیں آئی۔

ہر کوئی اپنے کام میں مگن رہتا ہے، کسی بار، سڑک اور تفریحی مقام پر ملنے والوں سے آپ کی اچھی علیک سلیک تو ہوجاتی ہے، لیکن یہ دوستی صرف چائے، کافی یا بیئر کے ختم ہونے تک ہی چلتی ہے۔

پراسیچیوٹ ہوں، چلو گے؟

ٹینا کے انکشافات

اتنی دیر میں بارش تھمی تو ایڈرین نے بھی الوداعی مصافحہ کیا، میں نے بھی تشکرانہ انداز میں اسے رخصت کیا کہ چلو اس نے میرے دورہ پیرس کے لیے کچھ آسانیاں پیدا کردیں۔ میں نے بھی بارش کا رکنا اپنے لیے غنیمت جانا اور پھر سے سینٹرم کی طرف نکل پڑا، بہت سی سڑکیں ناپیں، لوگوں سے ملا۔

ایک چیز تو میں نے محسوس کی کہ وہاں بھی بھکاریوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، سڑک کنارے بیٹھے ہٹے کٹے نوجوان، بوڑھی عورتیں، یہاں تک کہ فیملیز فٹ پاتھ پر بستر بچھائے بیٹھی ہیں، بس آگے ایک خالی کپ یا سافٹ ڈرنگ کا، ٹن رکھا ہوتا ہے، کہ اللہ کے نام پر جو ہے، اس میں ڈال دو۔

بعض اشاروں سے بھی مانگتے ہیں اور بعض ہاتھ سے روکنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔ بھکاریوں میں زیادہ تر تعداد پولینڈ اور مشرقی یورپ کے افراد کی ہے۔ ایک خاتون کو دیکھا کہ بچہ اٹھائے کمبل میں لپٹی بیٹھی تھی، واپس آیا تو ایک انگریز بھی اسی کمبل میں گھسا بیٹھا تھا، مجھے دیکھتے ہی اس نے ہاتھ کے اشارے سے روکا، میں بھی اس تجسس میں رک گیا کہ جان پاﺅں کہ آخر ماجرا کیا ہے۔

سفر یورپ: دیسی اسٹائل

کتوں کیلئے فٹبال گراؤنڈ

ایمسٹرڈیم سے برسلز

عورت ایشیائی سی اور مرد انگریز۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ برسلز کا ہی رہائشی ہے اور یہ عورت کی بیوی ہے۔ میں نے کہا کہ یہ لڑکی تو یورپین نہیں لگتی، لڑکی فوری بولی کہ وہ انڈین ہے، یہیں دونوں میں دوستی ہوئی اور وہ ایک بچے کے والدین بن گئے۔ روزگار تو تھا نہیں، سو نوبت بھیک مانگنے پر آگئی ہے۔

لیکن میرا اندازہ تھا کہ لڑکی غیرقانونی طریقے سے آئی ہوگی، جس نے یہاں کی نیشنیلٹی کے لیے مقامی شخص سے دوستی کی، بچہ بھی پیدا کرلیا، بعد میں اسے اندازہ ہوا کہ یہ کیا ہوگیا، اب وہ پاوں میں بچے کی زنجیر کی وجہ سے اس شخص کے ساتھ بندھی بیٹھی ہے۔

اسی طرح کے بہت سارے لوگ میں نے دیکھے، جو رنگ و نسل کے الگ تھے لیکن فیملی تھے۔ عام مقامات پر بھی سینکڑوں ایسے جوڑوں کو دیکھا جن کی قومیت مختلف تھی لیکن وہ ساتھ تھے۔ عموما گوریوں کے دوست کالے دیکھے، زیادہ تر انڈین لڑکیاں گورے دوستوں کے ساتھ نظر آئیں۔

ایک چیز اور قابل ذکر تھی کہ یا تو لڑکیوں نے انتہائی کم کپڑے پہنے ہوئے تھے، جن کے پورے تھے بھی، وہ بھی نہ ہونے کے برابر تھے، یہ مرض پاکستان میں بھی عام ہوتا جارہا ہے کہ نئی پینٹ ایسی ہوتی ہے، جسے پھٹی ہوئی ہو، گٹھنے یا ٹانگوں کے پاس سے لیکن وہاں لڑکیوں کی پینٹیں وہاں، وہاں سے پھٹی ہوئی تھیں، جس جس جگہ کو چھپانے کے لیے کپڑے پہنے جاتے ہیں، حیرانی بھی ہوئی کہ بھائی یہ کیا منطق ہے۔ بعض کے لباس ایسے تھے کہ ہر پیچ و خم کا بخوبی اندازہ ہوجائے۔

برسلز:سیکیورٹی کراچی، علاقہ اسلام آباد سا

یورپ کے دیگر شہروں کی طرح برسلز میں بھی دکانیں اور دفاتر شام 5 بجے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ وقت کی پابندی ایسی کہ پونے پانچ بجے ہی دکانوں میں گاہکوں کا داخلہ بند کردیا جاتا ہے اور اندر بھی اعلان ہونا شروع ہوجاتے ہیں کہ 10 منٹ میں خریداری ختم کرلیں، پھر کوئی کروڑ روپے کا مال لینے ہی کیوں نہ آجائے، دکان میں داخل نہیں ہوسکتا۔

میں بھی کوشش کے باوجود پونے پانچ بجے کے بعد خریداری کرنے یا صرف چسکا لینے کے لیے دکانوں میں داخل نہیں ہوسکا۔ پانچ بجے دکانیں بند ہونے کا مقصد یہ نہیں کہ ہر طرف ہو کا عالم ہوجائے، رش ضرور کم ہوجاتا ہے لیکن لوگوں کی ایک بڑی تعداد وہاں خریداری میں مصروف نظر آتی ہے۔

وجہ ہیں، وہ تارکین وطن جو دکانوں کے شٹر نیچے ہوتے ہی، ان کے آگے اپنے خوانچے سجا لیتے ہیں، جہاں سستی اور ان کے اپنے ہی ملک کی بنی ہوئی اشیا فروخت کی جاتی ہیں۔

یوں کہا جائے کہ پانچ بجے یورپی بازار بند اور تقریباً تین گھنٹے کے لیے دیسی اور افریقی بازار کھل جاتے ہیں۔ ماحول بھی بدل جاتا ہے، چیز کے لیے ضد کرتے اور شرارتیں کرتے بچوں کو مارتی غصے میں بھری مائیں بھی نظر آئیں گی، رحم دل باپ بھی نظر آئے گا، نشے میں گرے ہوئے آوارہ بھی نظر آئیں گے اور بھکاریوں کی بھی بھرمار ہوگی۔

بہت سی آوارہ گردی کے بعد بھوک نے ستایا تو بجائے کسی اور جگہ جانے کے اسی پاکستانی ریسٹورنٹ رائل فاسٹ فوڈ پر پہنچا۔ سلام دعا کے بعد کاونٹر والے نے پوچھا کہ کیا تناول کریں گے تو ایک بچے کی طرح کہا کہ بھائی تنگ آگیا ہوں روز، روز یہی برگر، سینڈوچ اور پیزا کھا کھا کر، کل چلے جانا ہے، کوئی دیسی چیز کی کھلا دو۔

خیال تھا کہ وہ شاید میری بات مان بھی گیا تو بنانے میں کافی دیر لگ جائے گی لیکن اس نے ہاتھ پکڑا اور ایک کونے میں لے جا کر بولا کہ بوفے ہے، میں نے کہا کہ بھائی دو دن سے کیوں نہیں بتایا۔ اس نے ڈھکن اٹھا کہ بریانی، کچن پالک، قورمہ، دال چاول اور اسی طرح کے متعدد کھانے دیکھا دیئے، میں نے دال چاول منگوائے اور گرما گرم چائے پی۔

اس دوران پاکستانی نیوز چینلز بھی دیکھتا رہا اور وہاں آنے والے انڈینز اور پاکستانیوں کی بھی باتیں سنتا رہا۔ اتنی دیر میں ایک ادھیڑ عمر شخص نے چینل بدل دیا، میں نے خبریں لگانے کی درخواست کی تو بولا بھائی رش بڑھ گیا ہے، ہر کوئی خبریں نہیں سنتا۔

خیر بل ادا کرکے باہر آیا تووہ شخص مجھ سے پہلے باہر کھڑا سگریٹ کے کش لے رہا تھا، علیک سلیک کے بعد گفتگو پہلے انگلش سے اردو اور پھر پنجابی میں تبدیل ہوگئی۔ بولا میں بھی لاہوریا ہوں اور گڑھی شاہو میں رہتا تھا، 20 سال یورپ کے مختلف ملکوں کی خاک چھانی اب تقریباً 10 سال سے یہاں برسلز میں چھوٹا سا ریسٹورنٹ کھولا ہوا ہے۔

پاکستان کے سیاسی اور معاشی حالات سے قاضی مدثر بھی پریشان نظر آیا، پاکستانی حالات میں میڈیا کے کردار پر بھی خاصی بحث ہوئی۔ بہت سی باتیں وہ کرنا چاہتا تھا تو مجھے دوبارہ اندر لے گیا اور کہا کہ آﺅ چائے پیئیں۔

وہاں بھی پاکستان کے حالات اور ان کا یورپ سے موازنہ کرکے مجھے سمجھانے کی کوشش کرتا رہا۔ وہاں کے پاکستانیوں کے حالات سے بھی آگاہی دی۔ ساتھ ہی مجھے پیشکش بھی کرڈالی کہ اگر اپنے چینل کے لیے کوئی نمائندہ درکار ہے تو مجھے بتاﺅ۔

خیر 2 گھنٹے کی اس گفتگو کے بعد میں نے اجازت چاہی تو اس نے مجھے ہوسٹل سے برسلز نارڈ (مرکزی ریلوے سٹیشن) اور پھر وہاں سے ایئرپورٹ پہنچنے کا آسان راستہ بھی سمجھایا اور دوبارہ آنے کی دعوت دی۔

نصف شب بیت چلی تھی، صبح پیرس کے لیے نکلنا تھا، سو جلدی جلدی ہوسٹل جا کر سونے کی ٹھانی اور قدم بڑھا دیئے۔

(جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: