ڈیموکریٹس کی نوآزاد سرمایہ داری ہار گئی

نومی کیلن (دی گارڈین)

 

وہ جیمز کومبی اور ایف بی آئی پر الزام لگائیں گے۔ پھر نسل پرستی پر الزام دھرا جائے گا۔ کوئی برنی سینڈرز کو منتخب نہ کرنے کی وجہ بتائے گا۔ کبھی آزاد امیدواروں کی بات ہو گی، تو کبھی سوشل میڈیا کر مورد الزام ٹھہرایا جائے گا، ہم وکی لیکس کو بھی نہیں بخشیں گے۔

تاہم ہم یہ سچ نہیں بولیں گے کہ آج امریکا  پر ٹرمپ راج کی صورت میں جو عذاب نازل ہوا ہے ، اس کی وجہ لالچ پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی بدترین شکل نو آزادیاتی نظریہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہلیری کلنٹن  کی دنیا    کا نظریہ کسی بھی طرح ٹرمپ کی انتہاپسندی کا مقابلہ نہیں کر  سکا۔ کیا اب بھی ہم اپنی غلطی سے سیکھنے کو تیار نہیں؟

ہم یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بہت زیادہ لوگ کرب کا شکار ہیں۔ نوآزادیت کے تحت نجی کاری، معاشی اصلاحات،  کارپوریٹ مفادات کے نام پر عام آدمی کی زندگی تباہ کر دی گئی ہے۔ عام شخص بے روزگار ہے۔ اس کے پاس پنشن نہیں۔ اب سماجی تحفظ بھی تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ لوگ خوف زدہ ہیں۔ ان کے بچوں کا مستقبل موجود سے زیادہ درد ناک ہے۔

عام لوگ مسلسل ایک ’’ڈیوس‘‘ طبقہ کو ابھرتا دیکھ رہے ہیں۔ اس طبقے میں ٹیکنالوجی اور بینکوں کے ارب  پتی شامل ہیں، ایسے سیاست دان ہیں جیسے غریب کی فکر نہیں، ہالی ووڈ کے لوگ جن کی زندگی خواب ہے۔ ڈیوس طبقہ کامیابی کی ایک ایسے دعوت ہے جس میں عام شخص کو شامل ہونے کی اجازت نہیں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ جب ایک طبقہ یوں امیر اور طاقتور ہو تو باقی طبقات پیچھے رہ جاتے ہیں۔ یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ امریکا میں سفید فام افراد سماجی تحفظ اور رتبہ اپنا حق سمجھتے ہیں اورجب یہ خطرے میں آیا تو انہوں نے سب سے آنکھیں پھیر لیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اس طبقے کے درد کی بات کی، بریگزٹ نے بھی اسی طبقے کے درد کی بات کی، یورپ میں دائیں بازو کی بڑھتی طاقت بھی یہی بتا رہی ہے۔ اس درد کا اظہار اب قومیت کے نام پر نکل رہا ہے جس کا نشانہ واشنگٹن میں بیٹھی اشرافیہ بھی ہے، آزاد تجارتی معاہدے یا پھر ڈبلیو ٹی او یا یورپی یونین جیسی تنظیمیں ہیں۔

بے شک اس نفرت کا نشانہ رنگ و نسل، مذہب اور جنس بھی ہے۔ تاہم سچ یہ ہے کہ نوآزادیت کا نظریہ غریب کو کچھ نہیں دے سکتا کیونکہ اسی نے تو ڈیوس طبقے کو جنم دیا ہے۔ ہلیری  بھی اسی طبقے کا حصہ ہیں اور اب یہ طبقہ ناکام ہو چکا ہے۔

ٹرمپ نے کہا کہ ’’ہم سب دوزخ ‘‘ میں ہیں، ہلیری نے کہا کہ نہیں ’’سب ٹھیک ہے‘‘، اب آپ دیکھ لیں کہ کون درست تھا۔

ٹرمپ خود بھی اس سب کا حصہ تھا لیکن اب یہ پسے ہوئے طبقے کا  ترجمان بن گیا۔ تاہم ایسے طبقے سے صرف اصل بائیں بازو ہی لڑ سکتا ہے اور اگر ٹرمپ نے دولت کی منصفانہ تقسیم کا کوئی بھی حقیقی ایجنڈا نافذ کیا تو اس کے  بیشتر ساتھی ہی مخالف ہو جائیں گے، جس کا نتیجہ مواخذہ ہو گا۔

اس وقت امریکا کو ایک ایسی پالیسی کی ضرورت ہے کہ جہاں یونین کے تحت لوگوں کی نوکریاں محفوظ ہوں، ماحول کا تحفظ فیکٹری مالکان خود کریں، ادارہ جاتی سطح پر نسل پرستی اور صنفی امتیاز کو ختم کیا جائے، سماجی تحفظ کو مستحکم کیا جائے لیکن ٹرمپ اور ری پبلکنز یہ نہیں کر سکتے۔

اس عمل کے لئے ایک تحریک کی ضرورت ہے اور برنی سینڈرز کی مہم میں یہ تحریک بنی لیکن ڈیموکریٹس نے اسے قبول نہیں کیا۔ لوگ ناراض ہیں، ان کی ناراضی جائز ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ڈیموکریٹس سوچیں اور ایک حقیقی اصلاح پسند کے گرد اکٹھے ہوں، اگر ایسا نہ ہوا تو شاید ٹرمپ کے بعد لوگ کسی ایسے شخص کے پیچھے کھڑے ہو جائیں تو پوری تباہی  یا حقیقی انقلاب کا قائل ہو۔

 

انگلش میں پڑھیں

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: