سب سے بڑی کہانی مس ہو گئی

مارگریٹ سولیمن (واشنگٹن پوسٹ)

 

اگر ایمانداری سے بات کی جائے تو پھر یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ میڈیا نے یہ کہانی مس کر دی۔ حقیقت یہ تھی کہ امریکی عوام کی اکثریت کچھ اور چاہتی تھی۔ بے شک ان ووٹروں نے چیخا، دوہائی دی لیکن بیشتر صحافی یہ آوازیں نہیں سن سکے۔

میڈیا یقین ہی نہیں کر سکا کہ ٹرمپ کی ریلیوں میں شرکت کرنے والے ہزاروں افراد  کروڑوں ووٹوں میں بدل سکیں گے۔ صحافیوں کو یقین ہی نہیں تھا  کہ امریکا ایک ایسے شخص کو منتخب کرے گا جو معذور افراد کا مذاق اڑاتا تھا، خواتین کو ہراساں کرنے پر فخر محسوس کرتا تھا ، یہودیوں کے خلاف بات کرتا تھا اور نسل پرستی کی کھل کر حمایت کرتا تھا۔

ان کو لگتا تھا کہ کوئی جادو بھی ٹرمپ کو جتوا نہیں سکتا۔ صحافیوں، ملک کے پڑھے لکھے طبقے، شہری آبادی اور مغربی ساحلوں پر موجود لوگوں کو بھی یقین تھا کہ یہ شخص نہیں جیت پائے گا۔ گو میڈیا نے غریب افراد سے رابطہ کیا، ان کی شکایات سنی، ٹرمپ کی حمایت غریب سفید فام ورکر  طبقے میں واضح تھی، تاہم کسی نے اسے سنجیدہ نہیں لیا۔

ٹرمپ نے صحافیوں  کو کرپٹ قرار دیا جس کے بعد ہم ٹرمپ سے ذاتی طور پر اتنے دور ہو گئے کہ ہم حقیقت دیکھ ہی نہیں سکے۔ ٹرمپ کی فتح سب کے سامنے تھی لیکن صحافی ذاتیات کی وجہ سے حقیقت سے دور ہو گئے۔

صحافی اپنی پسندیدہ ویب سائٹس دیکھ کر گمان کرتے رہے کہ پولز کے مطابق توہلیری جیت رہی ہے، ہم نے اپنی خواہش پر یقین کر لیا حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ پولز ووٹ نہیں ہوتے۔ایسے حالات میں جب ووٹر کو لگے کہ وہ پسا ہوا ہے کہ نتائج اکثر مختلف ہوتے ہیں۔

ہلیری کے حامی ڈرے ہوئے تھے کہ ٹرمپ جیت جائے گا لیکن پھر بھی میڈیا نے قبول نہیں کیا۔ صحافی ہلیری کے خوف زدہ حامیوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ کوئی شاید یہ تسلیم کرنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ صحافی ایک معروف سیاست دان کو جیتنا دیکھنا چاہتے تھے، ہلیری میں عام سیاست دان اور صدر کی صلاحیت موجود تھی، ہم بس چاہتے تھے کہ وہ آرام سے جیت جائے۔

بے شک یہ صحافت کی تاریخی ناکامی ہے۔ آئندہ شاید ہم اپنی غلطی کا خمیازہ کئی سال تک ادا کریں کیونکہ لوگ میڈیا پر یقین ہی نہیں کریں گے۔ ٹرمپ کے حامی آج سچے ثابت ہوئے اور پورا میڈیا غلط ثابت ہوا۔ میڈیا نے ٹرمپ کو درست  موقع نہیں دیا، اس پر عوام کبھی بھی میڈیا کو معاف نہیں کریں گے۔ سڑکوں کی بات درست ثابت ہوئی کہ میڈیا سرمایہ داروں کی لونڈی ہے۔

ٹرمپ کو میڈیا نے نہیں بنایا لیکن عجیب و غریب حرکات کی وجہ سے  وہ میڈیا کی کوریج  کا مرکز بنا رہا۔ ہلیری کلنٹن کے ای میلز کے معاملے کو بھی میڈیا نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا لیکن آج ثابت ہو گیا کہ میڈیا جن معاملات کو اہم سمجھتا تھا، اس بار وہ سب غیر اہم نکلے۔ لوگوں نے ٹرمپ کو ووٹ دیا اور امریکی اشرافیہ سے بدلہ لیا۔

ہلک ہوگن نے کہا تھا کہ ’’میڈیا ٹرمپ کے ہمیشہ الفاظ کو پکڑتا ہے اور بات کو سنجیدہ نہیں لیتا۔‘‘ یہ بات درست تھی کہ ہم پوچھتے رہے کہ میکسیکو سے دیوار کیے بنے گی؟داعش کیسے ختم ہو گی؟ امیگریشن پالیسی سے لوگوں کو کیسے نکالو گے؟ تاہم لوگ ان کے الفاظ کو نہیں بلکہ بات کو سنجیدگی سے لے رہے تھے۔

لوگوں کو معلوم تھا کہ  ٹرمپ کوئی دیوار کھڑی کرنے نہیں جا رہا بلکہ ایک سنجیدہ اور دانش مندانہ امیگریشن پالیسی بنانے کی بات کر رہا ہے۔ بہت سے صحافیوں نے عوامی غصے پر اسٹوریز لکھی لیکن ہم نے تسلیم نہیں کیا۔

صحافی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایک بظاہر بدزبان شخص، جس کا ماضی داغدار ہو، جو کسی کی نہ سنے، جو میڈیا دیکھ کر اپنی پالیسی بنانے کی بات کرے، جو ایک غریب امریکی کی طرح حقائق کے منافی تجزیہ دے، ایسا شخص امریکی صدر بن سکتا ہے؟

تاہم عام امریکی نے ثابت کر دیا کہ وہ ہم سے بہتر ہے۔ انہوں نے اپنے جیسے شخص کو امریکاکا صدر بنا دیا۔ عام امریکی نے ثابت کیا کہ وہ اپنے فیصلے خود کر سکتا ہے اور جسے چاہے منتخب کر سکتا ہے، اسے امریکی میڈیا یا کسی دوسرے کی ضرورت نہیں۔ وہ بے خوف ہے، شاید یہی امریکی خواب ہے۔

ہم چاہے جتنا مرضی ڈریں لیکن اب سچ یہ ہے کہ ٹرمپ ہی امریکا کا نجات دہندہ  ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: