سینیٹر طلحہ محمود کی زیرصدارت سینیٹ کابینہ کمیٹی کا اجلاس ہواجس میں پمز میں ڈپوٹیشن پر ڈاکٹروں کی تعیناتی اور پمز اسپتال میں مریضوں کو دستیاب سہولتوں پر پمز انتظامیہ نے بریفنگ دی۔
بریفنگ کے دوران پمز اسپتال کے ڈاکٹر امجد نے پمز اسپتال میں کروڑوں روپے کے گھپلوں کا انکشاف کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پمز اسپتال کے کوریڈورز میں 18 کروڑ روپے کی ٹائلیں لگائی گئیں۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ 28لاکھ روپے کی ٹرانسپلانٹ مشین چوری ہوگئی جبکہ اسپتال میں واحد جگر ٹرانسپلانٹ 48 کروڑ روپے کی لاگت سے کیا گیا اور بد قسمتی سے ٹرانسپلانٹ کرانےوالا مریض بھی نہ بچ سکا۔نجی ہسپتال میں جگر کے ٹرانسپلانٹ کی لاگت 55 لاکھ آتی ہے۔
کمیٹی میں پمز اسپتال میں ڈیپوٹیشن پر تعینات ڈاکٹروں کے معاملے پر بھی بحث ہوئی۔چیئرمین کمیٹی نے بتایا کہ پمز کے وائس چانسلر ڈاکٹرز پر دباو ڈال رہےہیں جو ٹرانسفرز کے معاملے پر عدالت جارہےہیں۔
سینیٹر کلثوم پروین نے بتایا کہ معاملے پر سپریم کوٹ کو غلط بریفنگ دی جارہی ہے۔پمز سے ڈاکٹر الطاف کو پہلے نکالا گیا ،پھردوبارہ رکھ لیا گیا ۔
پمز اسپتال کے وی سی جاوید اکرام کا کہناتھا کہ میں اس کیس میں پارٹی نہیں ہوں۔سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کر کے ڈاکٹرز کو واپس صوبوں میں بھیجا ہے۔ اگر میری نیت پر شک ہے تو کمیٹی مجھے حکم دے ابھی مستعفی ہو جاوں گا۔
سینیٹر شاہی سید نے چیئرمین کمیٹی سینیٹر طلحہ محمود کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا چیئرمین سی ڈی اے شیخ انصر کو اس بات کا علم ہے کہ کہ ایک نجی اسپتال الشفاء نے سی ڈی اے کی اڑھائی ایکڑ جگہ پر قبضہ کر رکھا ہے۔
شیخ انصر نے کہا کہ وہ اس بات سے لا علم ہیں جلد اس کی انکوائری کریں گے۔