قومی کانفرنس، سائیڈ لائن ملاقاتیں، نتیجہ پارلیمانی کمیٹی

 

بھارتی جارحیت اور مسئلہ کشمیر پر ہونے والی اہم ترین اے پی سی  میں قومی سلامتی کے اہم امور پر پارلیمانی کمیٹی قائم کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے۔

تاہم اجلاس میں فی الحال کمیٹی کے خدو خال کو واضح نہیں کیا گیا۔ اعلامیہ میں بھی صرف اتنا ہی کہا گیا کہ پاکستان دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف عمل پیرا ہے۔ تمام جماعتیں متفق ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عمل کیا جائے ۔ تاہم میڈیا سے گفتگو میں بلاول بھٹو اور شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ ملک کی سکیورٹی صورتحال اور جاری آپریشنز کے حوالے سے پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی بنانے پر اتفاق ہو گیا ہے۔

ایسی پارلیمانی کمیٹی کے قیام کے لئے متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلز پارٹی ایک عرصے سے حکومت پر دباؤ ڈال رہے تھے۔ تاہم عسکری قیادت کو اس حوالے سے تحفظات تھے۔ انہی تحفظات کو دور کرنے کے لئے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کا کام سابق کمانڈر سدرن کمانڈ ناصر خان جنجوعہ کے سپرد کیا گیا تھا۔

ذرائع کے مطابق پارلیمانی کمیٹی نیشنل  ایکشن پلان اور خصوصی طور پر کراچی آپریشن کا جائزہ لینے کا اختیار حاصل کرے گی۔ دوسری طرف پنجاب ، بلوچستان اور فاٹا میں جاری کارروائیوں پر بھی نظر رکھے گی۔ قومی قیادت نے بھی عسکری قیادت کی طرح ایک ڈھیلے ڈھالے نام پر کمیٹی قائم  کی ہے جس کا دائرہ اختیار اس کی فعالیت طے کرے گی۔

کانفرنس  سے قبل فاروق ستار کی وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات ہوئی۔ فاروق ستار ایک عرصے سے وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات چاہتے تھے لیکن وزیراعظم ٹال مٹول سے کام لے رہے تھے۔ اس ملاقات میں وزیراعظم نے اپنا وزن ایم کیو ایم پاکستان کے پلڑے میں ڈال دیا۔وزیراعظم نے فاروق ستار کومکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔

ادھر وزیراعظم سےون ٹو ون ملاقات میں بلاول بھٹو نے بھی عسکری قیادت کو پارلیمنٹ پر فوقیت دینے کے حوالے سے شکوہ کیا۔ اس ملاقات میں بھی پارلیمانی   کمیٹی کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔

وزیراعظم نے  قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے قیام کے معاملے پر اتفاق رائے کا کام بلاول بھٹو کو دیا۔ بلاول بھٹو نے  اے پی سی کی سائیڈ لائن پر پی ٹی آئی اور دوسری جماعتوں سے ملاقات کر کے  پارلیمانی کمیٹی پر راضی کیا۔

ذرائع کے مطابق سیاسی قائدین کا خیال تھا کہ پیپلز پارٹی کے دور میں قائم اس کمیٹی کے دوبارہ قیام سے ملک میں عسکری اداروں کی کارروائیوں پر نظر رکھی  جا سکے گی۔ آئندہ کے لئے بھی ایسی فعال کمیٹی  سول اور عسکری حکام کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کے کام آ سکتی ہے جبکہ اگر معاملات ایسے ہی جاری رہے تو شاید سیکیورٹی کے نام پر کوئی بھی اختیار منتخب حکومت کے پاس نہیں بچے گا۔

اے پی سی سے ایسی پارلیمانی کمیٹی کے قیام سے واضح ہے کہ سیاسی قیادت نے ابھی تمام اختیارات طاقتور حلقوں کے سامنے سرینڈر نہیں کیے اور اس حوالے سے تمام جماعتوں میں یہ سوچ موجود ہے کہ پارلیمانی بالادستی کو یقینی بنانا انتہائی اہم ہے۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: