فرینڈلی فرینڈ شپ والے پالتو جن

تحریر:شہزاداقبال

وہ جولائی1989کا ایک  روز تھا اسی رات  اسلام  آباد کے  ایوان صدر  میں  بھارتی  وزیراعظم راجیو  گاندھی  کے اعزاز میں ایک پرتکلف  عشائیے کا  اہتمام  کیا  گیا تھا ۔صدرغلام اسحاق خان  اور وزیراعظم  بے نظیر بھٹو  بھارتی مہمان کے پہلو  بہ پہلو بیٹھے  تھے  انواع واقسام کے  کھانے  بڑی  خوب صورتی سے  میزوں پر چنوائے ہوئے تھے۔

 

ضیافت  کے موقع پر میڈیا   سے گفتگو کی  باری  آئی تو ایک صحافی نے  راجیو گاندھی  سے  پاکستان اور  بھارتی  میڈیا  سے  متعلق  سوال  پوچھ لیا جس پر  بھارت  کے  کم عمر  ترین وزیراعظم نے پاکستان کی کم عمر  ترین خاتون وزیراعظم کی موجودگی میں  جواب دیا کہ پاکستان اور  بھارت کے میڈیا میں  ایک ہی قدر مشترک ہے کہ  نو  بجے  کے بعد  وزیراعظم ہی  ٹیلی  ویژن کی سکرین پر نظر آتے ہیں ساتھ میں انہوں نے  یہ گلہ   بھی کیا کہ  بھارتی میڈیا پاکستان سے زیادہ ان کا مخالف ہے شائد وہ  ٹھیک ہی  کہتے تھے کہ  میڈیا کے زیر  عتاب  رہنے پر انہیں اسی سال  اقتدارسے الگ ہونا پڑا اور پھر وہ  اپوزیشن لیڈر  بن گئے ۔

 

پاکستان کے سیاست دان بھی  میڈیا  سے  نالاں  نظر آتے ہیں  حالانکہ آج کے کئی سیاست  دان  تو ایسے  بھی ہیں  جو ماضی میں  اخبارات کے  دفاتر میں جا جا کر  اپنی کسی ملاقات  یا پھر کسی کارنر  میٹنگ  کی   خبر  اپنے ہاتھ  سے لکھتے اور یہ بھی  نہ ہو تو کسی واقعہ پر  اپنے  سیاست دان  ہونے کا ثبوت دینے کے لئے  بیان  لکھ  دیتے اور پھر  اسے  بڑے ملتجانہ انداز  سے  سی این ای  یا نیوز ایڈیٹر کے حوالے کرتے   چہرے پر ایک  بے چارگی لاتے اور اسے  شہر والے  صفحے  پر سنگل کالم  ہی  سہی  شائع کرنے کی درخواست  کرتے لیکن  جب  یہی  افراد  اقتدار میں آئے  تو انہوں نے آنکھیں ماتھے پر  اور ماتھا کسی  طاقچے میں   رکھ دیا  کہ   تو کون اور میں کون۔۔۔

 

سرکاری  اشتہار  بند کرنا اور  صحافیوں کو  دھمکیاں دینا تو ان کے نزدیک  معمولی بات تھی ۔ ماضی میں  جب  ایک  برسر اقتدار  جماعت   ایک  اخباری گروپ  سے نا خوش ہوئی تو  اس کا   جہاں نیوز  پرنٹ روکا  وہیں  بے  تحاشا  ٹیکس لگا کر بھی اس کے کارکنوں کو   بے روزگار  کردیا  اور  پھر جب پوچھا  گیا  تو  پپولے منہ  سے  بولے  کہ وہ تو  سب  احتساب سیل کے سیف الرحمان کی کارستانی  تھی  ہمیں  تو پتہ ہی نہیں ہے۔

 

کہتے ہیں  کہ مشرف دور کے  بعد  بننی والی  حکومت نے جب اسی  گروپ کو  9ارب روپے کا واجب الادا ٹیکس  جمع کرانے  کا نوٹس  بھیجا تو مذکورہ  گروپ کی انتظامیہ   روایتی  طریقے  اپنانے لگی،  معاملہ  لٹک گیا  اور پھر 2013 میں  بننے والی  حکومت کے دور تک  ٹیکس  مزید  بڑھ گیا  جس پر اس   میڈیا گروپ  کے  سیٹھ نے  اپنی  فائل  حکومتی  سربراہ  تک اس امید کے ساتھ  پہنچائی کہ میرے  دست  طلب میں خالی  ہاتھ ہی  رکھ دے نہ  کچھ دینے سے  سائل کو  بہت  تکلیف ہوتی ہے۔ جس پر  حکمران وقت نے  تلخ  تجربے کی روشنی میں اس  بار  کمال مہربانی کی اورنرم   رویہ  اختیار کیا اور پھر  وہی  کیا جو  کرنے کا حق  تھا۔

 

سائل کے خالی لیکن آلودہ  ہاتھ کو اپنے  بھاری  بھرکم  ہاتھ کی جپھی دلوائی اور پھر سب اچھا ہونے لگا  اس  گرو پ  کےمالک  تو یہ  بھی کہتے  پھرتے ہیں کہ وہ  بیس کروڑ  عوام کاذہن کنڑول کرتے ہیں  ہماری مشرفی لیگ کو  تو صحافیوں  سے تعلقات  بنانے میں ملکہ حاصل  ہے اور کئی صحافی تو انہی کے عنایات سے   شہزادے بن چکے ہیں جبکہ  نئے پاکستان کے قائد جو کرشماتی قائد  تصور کئے جاتے ہیں ان کے  پیچھے  تو میڈیا   بھاگ  بھاگ  کر  بھاگتا ہے  اور ان  سے متعلق  ہر خبر   ٹاک  آف دی  ٹاؤن بن جاتی ہے۔ پر سرکار  پھر  بھی   بعض میڈیا   گروپ والوں سے کھچے کھچے سے   نظر آتے ہیں ۔

 

پرنٹ  میڈیا ہو ، الیکٹرانک  یا پھر سوشل میڈیا۔ خبریں ہر  جگہ  گرم ہیں لیکن  گزشتہ چند  برسوں  سے  جو   بڑی  تبدیلی  آئی  ہے وہ یہ کہ  یہاں  خوب سیاسی سرمایہ کاری ہوئی ہے جس کے  مثبت اثرات گریڈ  بی اور سی   صحافیوں تک بھی پہنچ  رہے ہیں   اور انہیں نہانے کے لئے اب  بھارت  جانا نہیں  پڑتا مہربانوں نے  گنگا جمنا نہانے کا بندوبست  ان کے  گھر  میں ہی کردیا ہے  انہیں   صرف اپنی خبر  بنوا نے اور سیاسی مخالفین کی  خبر لینے  کی فکر ہے۔

بہر حال میڈیا کے جس  جن سے  راجیو  گاندھی  تنگ اور شاکی تھے اور برطانوی سیاست دان دریائے ٹیمز کی نسبت اخبار ٹائم  سے زیادہ  ڈرتے تھے  ہمارے سیاست دانوں نے اب  فرینڈلی فرینڈ شپ والے پالتو میڈ یائی  جن پال لئے ہیں اوروہ ان سے بہت خوش ہیں ۔

About The Author

شہزاد اقبال سترہ سال سے پیشہ صحافت  سے منسلک ہیں۔11 سال  پرنٹ  میڈیا  کی خاک  چھانتے  رہے  اور  گزشتہ  6 سال  سےالیکڑانک میڈیا   کی خاک بنے ہوئے ہیں۔ ان دنوں 92 نیوز  سے وابستہ ہیں۔ ان سے اس ای میل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ shahzadiqbal@yahoo.com

 

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: