الیپو کے ملبے تلے چیخ و پکار بند،لوگ مرنے لگے

الجزیرہ

الیپو میں بدترین بمباری جاری ہے۔ 20 لاکھ کے قریب لوگوں کے پاس پینے کے لئے پانی بھی میسر نہیں ہے۔ شامی افواج تیزی سے باغیوں کے علاقوں کی جانب پیش قدمی کر رہی ہیں۔ اب شامی فضائیہ یہ نہیں دیکھ رہی ہے کہ شہر آبادی کہاں ہے ؟ وہ عورتوں اور بچوں کا خیال بھی نہیں کر ہے۔ یوں لگتا ہے کہ شامی فوج نے الیپو سے باغیوں کے خاتمے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ چاہے اس کے لئے کتنا بھی خون بہانا پڑے۔

شامی فوج نے الیپو کے شمالی علاقے ہندرات کیمپ  پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ الیپو میں شامی فوج کی سب سے اہم فتح ہے لیکن اس کے لئے فضائیہ نے تین دن تک علاقے میں بمباری کی۔ یہ اہم علاقہ الیپو میں کئی سال تک باغیوں کے پاس رہا۔ یہاں سے ہی مرکزی سڑک اندرون شہر کی طرف جاتی ہے۔

باغیوں نے بھی تسلیم کر لیا ہے ک ہندرات اب ان کے پاس نہیں رہا جبکہ شامی فوج کا کہنا ہے کہ انہوں نے درجنوں دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ علاقے کے لوگوں نے عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز سے گفتگو میں کہا کہ حکومت نے نئی طاقت سے آپریشن شروع کیا۔ تین راتوں میں بدترین بمباری دیکھی۔ یوں لگتا تھا کہ رات میں دن ہو گیا ہے۔ ہر طرف آگ تھی۔ اس کے بعد باغی خود ہی علاقے چھوڑ کر بھاگ گئے۔

الیپو کے مشرق میں موجود باغیوں کا کہنا ہے کہ آسمان میں اب طیارے ہیں اور ان کو روکنا ناممکن ہے۔ اگر ایسے ہی بمباری جاری رہی تو شہر پر کنٹرول رکھنا ممکن نہیں ہو گا۔اس بار حکومت کی بمباری میں عام شہریوں کا بھی لحاظ نہیں کیا گیا۔ علاقے میں دیکھا جا سکتا ہے کہ درجنوں عمارتیں زمین بوس ہو گئیں۔

شہر میں موجود باغی بمباری پر افسردہ ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ ملبے میں اب بھی لوگ موجود ہیں لیکن ان کو نکالنے کے لئے وہ کچھ نہیں کر پا رہے۔ چیخوں کی آوازیں آ رہی ہیں لیکن وہ مجبور ہیں کیونکہ ان کو نکالنے کے لئے کوئی مشینری نہیں۔ ایسے میں چیخیں، مدھم ہو رہی ہیں، شور کم ہو رہا ہے ، لگتا ہے کہ اب ملبے تلے لوگ مر گئے ہیں۔

شامی انسانی حقوق  مبصر تنظیم کے مطابق اب تک حملوں میں 25 لاشوں کو نکالا جا چکا ہے جن میں عورتیں اور بچے شامل ہیں۔ تاہم شامی فوج کا کہنا ہے کہ انہوں نے عام آبادی کو نشانہ نہیں بنایا اور باغی پراپیگنڈا کر رہے ہیں۔ پہلےبھی انہوں نے خود شہریوں کا قتل عام کر کے شامی فوج پر الزام لگائے۔

یونیسیف کے مطابق بمباری سے باب النیراب پمپنگ اسٹیشن بھی تباہ ہو گیا جس کی مدد سے باغیوں کے علاقوں میں موجود ڈھائی لاکھ افراد کو پانی میسر ہوتا تھا۔ تاہم پائپ لائن کی تباہی سے لوگوں کے لئے زندہ رہنا ممکن نہیں رہا۔

رائٹرز کے مطابق 150سے زائد فضائی حملوں کی وجہ سے شہر میں ایمرجنسی ایمبولنس سروس اور زیر زمین چھپنے کے ٹھکانوں کا نظام بھی مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے۔ اب شہریوں باغی اور شامی فوج کے درمیان محصور ہیں۔

تاہم اس مسئلے پر کوئی عالمی معاہدہ اب تک ممکن نہیں ہو سکا۔ جہاں سیاست دان اپنے مسائل میں پھنسے ہیں تو دوسری طرف جنگ میں بچوں کی جان کو خطرہ ہے۔ دنیا ایک ایسے ملک کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش میں ناکام نظر آتی ہے کہ جہاں  کی آدھی آبادی آئی ڈی پی بن چکی ہے۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: