تحریر:ظہیراحمد بابر
ہریانہ کے وزیراعلیٰ نے لاہور سے گئے صحافیوں کو ناشتے پر مدعو کیا ۔ ہم وقت سے پہلے جاپہنچے تاکہ ذرا کھل کر گپ شپ لگ سکے ۔ وہاں ایک صاحب نے اپنا وزیٹنگ کارڈ دیتے ہوئے تعارف کرایا ۔ یوں سمجھ لیں میں یہاں کا اٹارنی جنرل ہوں ، وہ بڑھ چڑھ کے اپنی قابلیت کے قلابے ملانے لگے ، ایک دوست نے کان میں سرگوشی کی ، وکیل صاحب ! بہت بڑھ بولے ہیں ۔ یہ سن کر ہمیں شرارت سوجھی اور بولے ۔ ہم تو وکیلوں سے دور دور ہی رہتے ہیں ۔ وزیراعلیٰ کو یہی سمجھانے آئے ہیں ۔ اگر ماضی کی تلخیوں سے نکلنا چاہتے ہیں تو وکیلوں سے بچ کے رہیں ۔ ورنہ شکوے شکایت ختم نہیں ہوں گے ۔
وہاں نشست جمائے صاحبان نے ہمیں دلچسپی سے دیکھا اور ‘اٹارنی جنرل ‘ نے حیرت میں ڈوب کر پوچھا ۔ پاک انڈیا تعلقات کی خرابی میں وکلا نے کیا کردار ادا کیا ہے ۔ ہم بولے ۔ جناب من ! جب سے واہگہ سے اٹاری داخل ہوئے ہیں ، یہی سن رہے ہیں ۔ زمین سانجھی ، ثقافت سانجھی ، بولی سانجھی ، رنگت سانجھی ، پھر یہ الگ الگ دیش کیوں ؟ ہمارے پرکھوں ( بزرگوں ) کی غلطی نے دھرتی ماں پر لکیر کھینچ دی ۔ یہ کہہ کر ہم دم لینے کو رکے تو سب کے چہرے سوالیہ نشان بنے نظر آئے ۔ ہم نے دوبارہ بات شروع کی ۔ دیکھو جی !بات سمجھ میں آجائے تو ٹھیک نہ آئے تو مرضی آپ کی ۔ آزادی کی تحریک کے ہندوؤں کے قائد تھے ۔ منوہر داس کرم چند گاندھی اور جواہر لال نہر و ، دونوں ہی وکیل تھے ۔ مسلمانوں کے قائد تھے ، محمد علی جناح ، علامہ محمد اقبال اور لیاقت علی خان ، یہ بھی وکالت کے شعبے سے وابستہ رہے ۔ اب وکیل کسی طرف کا بھی ہو ، وہ کیس ہارنا نہیں چاہتا ۔
ہندو اور مسلم قیادت نے جی جان سے اپنے سائل کا کیس لڑا ۔ دونوں ہی کیس جیت گئے ۔ ایک نے پاکستان لے لیا ، دوسرے نے ہندوستان ۔باقی جو سانجھی باتیں تھیں وہ ساری ہار گئیں ۔ یہ کہہ کر ہم نے ”اٹارنی جنرل ” کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور بولے ۔ وکیل جی ! برسوں بعد جب سے یہ بات سمجھ آئی ہے کہ وکیل کیس جیتنے کے لیے لڑتا ہے ۔ ہم تو وکیل کو دیکھتے ہی ڈر جاتے ہیں ۔ جملہ ختم ہوتے ہی محفل میں زوردار قہقہہ بلند ہوا ، اور ”اٹارنی جنرل ” کھسیانے ہو کر اٹھ گئے ۔ انہیں جاتا دیکھ کر ایک صاحب بولے ۔ سچ کہا ، وکیل ، وکیل ہی ہوتا ہے ۔