شیطان کے بڑھتے پیروکار

آئیبن تھرین ہوم ۔ آر ٹی

شیطان پرست محض پُراسرار سنکی قسم کے لوگ نہیں جو سیاہ لباس پہن کر خفیہ مجلسوں میں جانوروں کی قربانیاں کرتے ہوں۔ اب یہ عام لوگ بن گئے ہیں جو خود کو ‘سیکولر’ کہتے ہیں۔عقل اور انفرادی سوچ کی آزادی کی وکالت کرتے ہیں۔

امریکا میں عوامی حکومتی اجتماعات میں اب شیطان پرست کھل کر سامنے آنے لگے ہیں۔ اگست کے مہینے میں الاسکا میں مقامی کونسل میٹنگ کے دوران  ‘شیطانی مندر’ کی ایک رکن کو ابلیس کی عبادت کرنے کی اجازت دی گئی۔ اسمبلی کے ارکان اس کے گرد دائرے کی صورت میں کھڑے ہوئے جب شیطان کی پیروکار نے ان سے کہا کہ ‘علم کے درخت سے پھل کھانے کی شیطان کی فطری خواہش سے خود کو ہمکنار کرلو’۔ پھر اس نے اس رسم کا اختتام ‘شیطان زندہ باد’ کے نعرے پر کیا۔

اجلاس کے شرکاء کو یاد دہانی کرائی گئی تھی کہ ان کے لیے ابتدائی رسم میں حصہ لینا ضروری نہیں۔

ٹی ایس ٹی (The Satanic Temple) ایک قدرے نئی تنظیم ہے جس کی بنیاد 2013 میں رکھی گئی۔ یہ سیاست میں عیسائیت کو دی جانے والی فوقیت کے خلاف سیاسی تبدیلی کے لیے لڑرہی ہے۔ ٹی ایس ٹی امریکا اور یورپ میں کام کررہی ہے اور ایک لاکھ ارکان رکھنے کا دعویٰ کرتی ہے۔

اس گروپ کا ایک مقصد سرکاری سکولوں میں ابلیس کے لیے جگہ بنانا ہے اور اس کام کے لیے ‘آفٹر سکول سیٹن’ کلب قائم کئے جارہے ہیں۔ لاس اینجلس، سالٹ لیک سٹی اور واشنگٹن ڈی سی میں 9 کلب بن چکے ہیں۔ ان کی تشہیری ویڈیو کے مطابق کلبز کا مقصد ‘عقلیت پسندی، سوال کی آزادی اور موج مستی’ ہے۔ ٹی ایس ٹی ایسے علاقوں میں کلب قائم کرنے پر توجہ دے رہی ہے جہاں پہلے سے عیسائی بچوں کے کلب کام کررہے ہیں۔

امریکا کے 3500 سکولوں میں 5 سے 12 سال کے بچوں کے لیے ‘گڈ نیوز کلب’ قائم ہیں جو عیسائیت کے فروغ کا کام کررہے ہیں۔ ٹی ایس ٹی کے ترجمان کے مطابق یہ کلب بچوں میں ‘جہنم اور خدا کے قہر کا خوف’ بھرتے ہیں جبکہ ان کے کلب اس کا نعم البدل ہیں۔

ٹی ایس ٹی کا مقصد سرکاری سکولوں کی لائبریریوں میں شیطانی کتب رکھوانا اور کھیلوں کے آغاز میں شیطانی مناجات ادا کرنا بھی ہے۔

یورپ کی جانب دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ بھی مذہبی لحاظ سے اُلٹی سمت میں چل نکلا ہے۔ جون میں سوئٹزرلینڈ میں دنیا کی سب سے بڑی سرنگ کی افتتاحی تقریب ہوئی جس میں جرمن چانسلر اینجلا مرکل، فرانسیسی صدر فرانکوس اولاندے اور اطالوی وزیراعظم میتیو رینزی شریک ہوئے۔ اس تقریب میں گھاس کا لباس پہنے ماسک لگائے لوگوں نے رقص کیا، چھت سے ‘دھتکارے فرشتے’ اور بکرے کے سر والا آدمی اُترا جس کے گرد ایسے رقص کیا گیا جیسے اس کی عبادت کی جارہی ہو۔ اس افتتاحی رسم کو بعد میں جہنم میں شیطانی منظر تعبیر کیا گیا۔

ایک ریسرچ کے مطابق امریکا میں کسی مذہب کو نہ ماننے والے، کسی خدا کو نہ ماننے والے یا کسی کو بھی نہ ماننے والوں کی تعداد 23 فیصد ہے جو 2007 کی نسبت 16 فیصد زیادہ ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ‘عقلیت پسندی اور مذہب سے آزادی’ کی کوشش کرنے والوں نے شیطان جیسی مخلوق کو اپنا سربراہ کیوں منتخب کیا؟ کیا یہ ایسا نہیں کہ روایتی روحانیت کو رد کرتے ہوئے اس کے متبادل پر ایمان لایا جارہا ہے؟

تضاد یہ ہے کہ مذاہب نے عقلیت پسندی کے مطابق خود کو ڈھالنا چاہا لیکن وہ جدیدیت کے سامنے ہارگئے اور مافوق الفطرت عناصر پر یقین پھر سے جنم لینے لگا ہے۔

اصل خبر پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: