افغانستان خانہ جنگی کے دہانے پر

داؤد مرادین

افغانستان کی  اتحادی حکومت کے درمیان سیاسی کشمکش  ہمیں ایک طوفان کی خبر سنا رہی ہے۔ امریکی انٹیلی جنس اداروں اور اقوام متحدہ نے بھی ملک میں سیاسی عدم استحکام کا خدشہ ظاہر کر دیا ہے۔2014میں جان کیری نے ایک معاہدہ کے ذریعے یہ اتحادی حکومت قائم کی جس نے 2سال میں الیکشن اصلاحات سمیت کچھ بنیادی کام کرنے تھے تاکہ افغانستان کو سیاسی انتشار سے بچایا جا سکے۔ تاہم آج تک افغان حکومت اس حوالے سے کوئی بھی  کام نہیں کر سکی۔

بنیادی اصلاحات نہ ہونے سے افغان حکومت اب تک اپنا قانونی جواز قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ آئندہ چند ماہ میں افغان حکومت پر مختلف سیاسی دھڑوں کا دباؤ مزید بڑھ جائے گا اور مجھے خدشہ ہے کہ شاید یہ کمزور حکومت اس دباؤ کو برداشت کرنے کے قابل نہ ہو۔ 2001کے بعد اب پہلی بار افغانستان میں سیاسی قوتیں ایک دوسرے کی حکومت گرانے کی کوشش میں لگ گئی ہیں۔تاہم اس بار طریقہ سیاسی ہے اور طالبان کی طرح بندوق کا استعمال نہیں کیا جا رہا۔

موجودہ بحران  درحقیقت افغان اشرافیہ کے سیاسی کھیل، عالمی قوتوں اور سیاسی انتخاب کا نتیجہ ہے۔ اس خطرناک سیاسی طوفان کو روکنے کے لئے عالمی قوتوں اور افغان سیاسی طاقتوں کو مل کر کوشش کرنا ہو گی۔ افغانستان کو بہت سے سیاسی مسائل کا سامنا ہے۔ تاہم سماجی بہبود کا نہ ہونا اور غربت سب سے اہم ہیں لیکن اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے درپا  اقدامات کی ضرورت ہے۔ ملک میں سیاسی مسائل، خصوصاً انتخابی اصلاحات کوافغان سیاسی جماعتیں اور عالمی قوتیں مل کر حل کر سکتی ہیں۔

2014کے سیاسی معاہدے میں تین مرکزی عناصر موجود تھے، اشرف غنی کی سیاسی قابلیت، عبداللہ عبداللہ کی چالیں اور امریکا کا وعدہ۔ تاہم اب یہ تینوں عناصر ختم ہو چکے ہیں کیونکہ کسی کو سمجھ نہیں آ رہی کہ آگے کیا کرنا ہے۔اشرف غنی نے ابتدا ہی سے سیاسی معاہدے پر توجہ نہیں دی ۔ وہ بس اپنے غزالی ساتھیوں کو نوازنے میں لگے رہے۔

عبداللہ واشنگٹن کے دباؤ میں ٹوٹ گیا۔ امریکا چاہتے تھا کہ غنی کو جگہ دی جائے اور عبداللہ کو اپنے ووٹروں کے سامنے یہ ثابت کرنا  تھا کہ اصل میں جیت اسی کی ہوئی ہے۔ تاہم یہ سب کھیل کھیلنے میں عبداللہ کا پورا وقت نکل گیا۔

امریکا نے بھی ماضی کی طرح اپنا کوئی وعدہ پورا نہیں کیا جس کی وجہ سے اشرف غنی کو تمام معاملات کو طول دینے کا موقع مل گیا۔ ان تمام حالات میں ماضی کا معاہدے کی بنیاد پر ہی ملک سے سیاسی عدم استحکام ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت ہمیں اس معاہدے میں وقت کے تعین کی ضرورت ہے تاکہ تمام اصلاحات مقررہ مدت میں ہوں۔

تینوں اسٹیک ہولڈرز کو اب ماضی کی روش بدلنا ہو گی۔ واشنگٹن کو بھی اب غنی کی طول دینے اور پھر مکر جانے کی پالیسی کو مسترد کرنا ہو گا اور سختی سے بات کرنا ہو گی۔امریکا اپنے حامد کرزئی کے تجربے کی بنیاد پر دوبارہ کسی پر یقین نہ کر کے غلطی کر رہا ہے۔ 2014میں دو سیاسی مسائل تھے، اول ایک متنازع انتخابات اور دوسرا متنازع سیاسی نظام۔ اس حکومت کو یہ دونوں مسائل حل کرنا تھے تاکہ نظام کی ساخت کو تبدیل کیا جا سکے۔

قومی  مشاورت نہ ہونے سے لوگوں میں سیاسی غم و غصہ بڑھ رہا ہے۔ اب یا تو ہم اچانک اس سیاسی نظام کو برباد ہوتے دیکھیں گے یا پھر سیاسی بحران شدید ہو گا۔ موجودہ سیکیورٹی مسائل میں افغانستان کسی بھی صورت سیاسی بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اگر ہم نظام کو جاری رکھنا چاہتے ہیں تو پھر ضروری ہے کہ ملک میں قبل از وقت صدارتی انتخابات ہوں۔

اگر حقیقت پسندی سے بات کی جائے تو اس وقت حکمران طبقے میں ایک بھی ایسا شخص موجود نہیں جس میں ملک کو سیاسی بحران سے نکالنے کی صلاحیت موجود ہو۔ واشنگٹن بھی افغانستان پر اپنا معاہدہ نافذ نہیں کر پایا کیونکہ وہ خود صدارتی انتخابات میں پھنسا ہوا ہے ۔ ایسے میں کسی کو افغانستان کی پرواہ نہیں ہے۔

ادھر اقوام متحدہ اور دوسری عالمی قوتوں کے پاس بھی اتنی طاقت نہیں کہ وہ کوئی معاہدہ افغانستان میں نافذ کر سکیں۔تاہم یہ ادارے کم از کم افغانستان کے لئے نئے انتخابات کو شفاف بنانے کے لئے کردار اداکر سکتے ہیں۔ ان کے پاس اتنے دانش مند لوگ موجود ہیں جو افغان اشرافیہ کو یہ سمجھا سکیں کہ اگر انہوں نے فوری طور پر اصلاحات نہیں کیں تو پھر شاید ان میں سے کوئی بھی نہیں بچے گا۔

غیر ملکی اثرات کے باعث افغانستان کئی دہائیوں سے جنگ میں پھنسا ہوا ہے۔ اگر ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو شاید بھی خانہ جنگی ہو گی اور ملک دوبارہ کئی حصوں میں تقسیم ہو جائے گا۔یہ بات ’انہونی ‘نہیں  کیونکہ پاکستان ، بنگلادیش، بھارت سمیت کئی ممالک کو ہم ٹوٹتے دیکھ چکے ہیں۔ اب افغانستان کے غیر پشتون بھی آزادی کی بات کر رہے ہیں۔ ادھر غیر ملکی مداخلت بھی افغانستان کو کمزور کر رہی ہے۔ ایسے میں شاید افغانستان کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔

افغان اشرافیہ کے برعکس  عام افغان ملک کے لئے فکر مند ہے۔ وہ سیاسی عمل میں شرکت کر کے ہمیں بتا رہا ہے کہ وہ تبدیلی چاہتا ہے لیکن موجودہ اشرافیہ شاید سننے کو تیار نہیں۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: