آدھا کشمیر ذہنی امراض میں مبتلا

بابا تمیم (الجزیرہ)

52 سالہ حافظہ بانو کو کبھی قالین کے پھول، کبھی دیواروں کی لکیریں اور کبھی چھت کے بالے گنتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے گھر میں تین چھوٹے کمرے  اور ایک کچن  ہے۔ ایک کمرہ مہمانوں کے لئے ہے تو دوسرے میں اپاہج رشتے دار رہتا ہے۔ ان کے گھر کا تیسرا کمرہ انتہائی اہم ہے جہاں یادیں بستی ہیں۔ اس کمرے میں ان کی مری ہوئی بیٹی اور لاپتا بیٹا رہتے تھے۔

حافظہ اسی کمرے میں رہتی ہیں۔ ان کے قریب میز پر ایک دوائیوں کا ڈبہ پڑا ہے جبکہ بیٹے اور بیٹی کی تصاویر بھی موجود ہیں۔ کمرے میں ایک ریڈیو بھی ہے جسے حافظہ نے ایک کپڑے سے باندھا ہوتا ہے۔ ہر رات وہ ایک ہی خواب دیکھتی ہیں کہ اپنے بیٹے کو عید پر نئے کپڑے بنا کر دیں گی اور ہر صبح وہ روتے ہوئے ہی اٹھتی ہیں۔

ان کے خاندان نے انہیں ایک ریڈیو لے کر دیا تاکہ وہ اس پر گانے سنیں اور دل بہل جائے۔ تاہم یہ بھی حافظہ کے ذہن کی طرح انتہائی حساس واقع ہوا۔ کپڑوں سے باندھنے کے باوجود مکمل جوڑا نہیں جا سکا۔ حافظہ ذہنی مریض ہیں لیکن وہ مقبوضہ کشمیر میں اکیلی نہیں جو اس مرض کا شکار ہوں۔

Hafiza and family

ڈاکٹرز ود آؤٹ باڈرز نے حال ہی میں کشمیر پر ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق مقبوضہ کشمیر کی آدھی آبادی کسی نہ کسی ذہنی مرض میں مبتلا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ 18 لاکھ بالغ افراد، یعنی کشمیر کی 45 فیصد آبادی  ذہنی امراض میں مبتلا ہے جبکہ 93 فیصد آبادی خطرناک ذہبی دباؤ سے  گزر چکی ہے۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کا ہر بالغ شخص اپنی زندگی میں کم از کم 8 بار کسی سخت ترین ذہنی اذیت سے گزر چکا ہے۔ 70 فیصد بالغ افراد ایک ایسے تجربے سے گزر چکے ہیں کہ جب ان کا کوئی نہ کوئی جاننے والا اچانک مار دیا گیا ہو۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 50 فیصد خواتین اور 37 فیصد مرد ڈپریشن کا شکار ہیں۔ 36 فیصد خواتین اور 21 فیصد مرد اضطراب کا شکار ہیں۔ ڈاکٹرز ود آوٹ بارڈر کی رپورٹ  اس نوعیت کی تیسری رپورٹ ہے۔ اس سے پہلے وہ شام اور عراق پر بھی اپنی رپورٹ شائع کر چکے ہیں۔

مقبوضہ کشمیر تین حصوں پر مشتمل ہے، جموں، وادی اور لداخ۔ 27 سال سے جاری نئی دلی کے خلاف مسلح جنگ  کا مرکز  ’’کشمیر کی وادی ‘‘ رہا ہے۔ اسی علاقے میں ذہنی مریضوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہے۔ مسلح گروہ بھارت سے آزادی کے لئے لڑ رہے ہیں جبکہ کچھ پاکستان سے الحاق کے لئے یہ جدوجہد کر رہے ہیں۔

یہ لڑائی 1989 میں  شروع ہوئی۔ اس دور میں صرف 1700 افراد نے ذہنی امراض کے لئے اسپتال  سے رجوع کیا جبکہ اس سال ایسے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ کے قریب تھی۔ کشمیری ماہر نفسیات  مشتاق مرغوب کا کہنا ہے کہ ’’یہ بحران ہے۔ 1989 کے بعد سے اب تک ہر نسل کو ذہنی اذیت سے گزرنا پڑا ہے، لوگوں کی زندگی اور عزت محفوظ نہیں۔ ایسے میں اب یہ امراض ایک سے دوسری نسل میں منتقل ہوتے جا رہے ہیں۔‘‘

Hafiz bano home

حکمران جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ فوج اور مسلح باغیوں کی وجہ سے لوگ ذہنی اذیت سے دوچار ہیں۔ ہم اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جب لوگ جنگ زدہ علاقے میں ہوتے ہیں تو وہ ہر وقت غیر محفوظ رہتے ہیں۔ کبھی کرفیو تو کبھی تلاشی، ایسے میں کوئی ٹھیک کیسے رہ سکتا ہے۔

حافظہ کی بیماری 1993 میں شروع ہوئی جب بھارتی فوج ضلع پھلوانا میں گھر میں گھسی اور اس کے 13 سالہ بیٹے جاوید کو زبردستی اٹھا کر لے گئی، جاوید اس وقت کھانا کھا رہاتھا۔ ان دنوں کشمیر میں کرفیو لگا تھا۔ آزادی کے پروانوں اور بھارتی افواج  میں ’’حضرت بل ‘‘ کے  مزار میں لڑائی چل رہی تھی۔

حافظہ واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’مزار پر لڑائی چل رہی تھی، پورا کشمیر بند تھا، جاوید کے اسکول بھی بند تھے اس وجہ سے وہ گھر میں تھا۔ وہ ساتھی بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لئے باہر نکلا۔ جب وہ کھانا کھانے گھر آیا تو کچھ دیر بعد بھارتی فوجی آئے۔ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے اسے اٹھا کر لے گئے ۔ ہم نے ا ن کی بہت منت سماجت کی۔  وہ پھر کبھی نہیں آیا۔‘‘ بس حافظہ رونے لگی۔

3نومبر 1993 کو انہوں نے پولیس میں رپورٹ درج کرائی کچھ دن بعد ایف آئی آر کی کاپی انہیں مل گئی۔ اس کے مطابق جاوید ایک مسلح تنظیم کا رکن تھا۔ 4 نومبر کو جب فوج اسے  جیل منتقل کر رہی تھی تو مسلح باغیوں نے حملہ  کیا، فائرنگ کے تبادلے کے دوران رات کے اندھیرے میں جاوید بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔

تاہم خاندان اس رپورٹ کو تسلیم نہیں کرتا۔ ان کا کہنا ہے کہ جاوید ایک اسکول جانے والا بچہ تھا۔ اگر وہ بھاگ جاتا تو یقیناً خاندان سے رابطہ کرتا۔ خاندان کے مطابق انہوں نے جاوید کی بازیابی کے لئے ہر چیز بیچ دی، وکیل کیا، ایک ایک جیل گئے، فوجی کیمپوں کا دورہ کیا لیکن جاوید نہیں ملا۔

حافظہ کا شوہر غلام نبی ایک رکشہ ڈرائیور ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ پتا نہیں کتنے پیسے لگ گئے۔ ہر چیز بیچ دی، سردیوں میں قالین بناتا تھا لیکن اس کام کی بھی تمام چیزیں بیچ دیں۔ ہم یہاں رہنا ہی نہیں چاہتے۔ بس۔

پھلوانا کے گاؤں منگوہیم میں یہ گھر مفلسی کی مثال ہے۔ اس گھر میں کھڑکیاں بھی نہیں لگی تھیں۔ حال ہی میں ایک غیر سرکاری تنظیم نے یہاں کھڑکیاں لگائیں۔ جاوید  کی جبری گمشدگی کے  تین سال بعد اس کی 14 سالہ بہن رخسانہ بھی حرکت قلب بند ہونے سے مر گئی۔

Hafiza Bano Kashmir

حافظہ کا کہنا ہے کہ ’’رخسانہ ہر وقت اپنے بھائی کو ڈھونڈتی رہتی تھی کیونکہ اسی کی ساتھ ہی تو وہ ہر جگہ جاتی تھی۔ ‘‘ اب ان دونوں کا صرف ایک ہی بچہ موجود ہے یعنی ان کی 30 سالہ بیٹی شفیقہ۔ حافظہ کا کہنا ہے کہ بس میں پاگل ہو چکی ہوں لیکن مکمل ہونے سے پہلے اپنی بیٹی کی شادی کرنا چاہتی ہوں لیکن کوئی بھی تیار نہیں۔ ہر ایک کو مال دار لوگ چاہئیں۔‘‘

غلام نبی کا اپاہج بھائی ولی بھی اسی گھر میں رہتا ہے۔ حافظہ کے مطابق ’’اگر ہم اس کا خیال نہیں رکھیں گے تو لوگ باتیں کریں گے۔ روز ایک ہمسائے کی مدد سے اسے باتھ روم بھجواتی ہوں۔ کپڑے بدلواتی ہوں۔‘‘حافظہ کی میڈیکل رپورٹ کے مطابق وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔ اس وجہ سے وہ سو نہیں پاتی۔

حافظہ نے اب دوائیاں کھانی بھی چھوڑ دی ہیں کیونکہ خاندان کے پاس پیسے ہی نہیں ہیں۔ غلام نبی بھی شدید بیمار ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ اگر وہ اسپتال گیا تو پھر شاید خاندان آج کھانا نہیں کھا سکے گا کیونکہ سارے پیسے خرچ ہو جائیں گے۔

Hafiza medicine

حافظہ کو آج کل ایک نئی پریشانی بھی ہے۔ حکومت نے آلودگی روکنے کے لئے نئی قانون سازی کی ہے جس کی وجہ سے کچھ ماہ بعد ان کا رکشہ بھی سڑک پر نہیں نکل سکے گا۔ اس موقع پر غلام نبی نے اپنی بیوی کو جھاڑ دیا۔

اس کا کہنا تھا کہ ’’اگر جاوید ہوتا تو آج یہ مسائل نہ ہوتے۔  ہماری زندگی بہتر ہوتی۔ وہ اسکول جاتا ، ساتھ پارٹ ٹائم سیب کے باغوں میں کام کرتا۔ وہ بہت ذمہ دار بچہ تھا۔ پڑھنے کے بعد آ کر آئس کریم بیچتا تھا۔ اگر وہ زندہ ہوتا تو ایک بے مثال بیٹا ہوتا اور آج ہمیں یہ مسائل نہ ہوتے۔‘‘

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: