الزبتھ پرانم ۔ الجزیرہ
کشمیر میں 9 جولائی سے جاری ریاستی تشدد کے واقعات میں 8500 افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ زخمیوں میں 5 ہزار افراد چھروں والی بندوق کا نشانہ بنے ہیں۔ پیلٹ گنز کے ایک راؤنڈ میں اسٹیل کے سیکڑوں ننھے چھرے ہوتے ہیں۔
سری نگر کا شری مہاراجہ ہری سنگھ اسپتال زخمیوں سے بھرا ہوا ہے۔ ان میں 500 کے قریب افراد ایسے ہیں جن کی آنکھیں بُری طرح متاثر ہوئی ہیں۔
اسپتال کی ایمرجنسی میں 18 سالہ محمد اپنے بستر پر ساکت لیٹا ہے۔ اس کے دھڑ کے اوپر والے حصے میں چھرے لگنے سے درجنوں ننھے سوراخ بنے ہوئے ہیں۔ اس کی نظریں چھت پر ٹکی ہوئی ہیں۔
محمد کے بستر پر موجود میڈیکل رپورٹ اور ایکس رے کے مطابق اس کے دل، پھیپھڑوں اور معدے میں درجنوں چھرے موجود ہیں۔ اس کا 20 سالہ کزن عامر بتاتا ہے کہ شوپیاں ضلع کے گاؤں امام صاحب میں ایک مظاہرے کے دوران محمد سیکورٹی فورسز پر پتھراؤ کررہا تھا جب ان لوگوں پر چھروں والی بندوقیں چلائی گئیں۔ محمد سے جب پوچھا گیا کہ کیا وہ دوبارہ مظاہرہ کرے گا تو اس میں اتنی طاقت بھی نہیں تھی کہ بول پاتا۔ اس کی جانب سے عامر نے جواب دیا، ”اس کے پاس کھونے کے لیے اور بچا ہی کیا ہے؟”
محمد کی طرح 18 سالہ معراج بھی سیکورٹی فورسز پر پتھر برسا رہا تھا۔ اس کا چہرہ چھرے لگنے کے باعث زخموں سے بھرا ہوا ہے۔ اس کی دونوں آنکھیں زخمی اور سوجی ہوئی ہیں۔ ڈاکٹرنہیں جانتے کہ اس کی سوجی ہوئی دائیں آنکھ میں بینائی باقی ہے یا نہیں۔ معراج کا کہنا ہے کہ اگر خدا نے چاہا اور اس کی آنکھ کا زخم بھرگیا تو وہ دوبارہ مظاہرہ کرے گا۔
امراض چشم کے وارڈ میں بستر دھوپ کے چشمے پہنے نوجوانوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ چھرے لگنے سے زخمی ہونے والے 5 ہزار افراد میں سیکڑوں بچے اور عام راہگیر بھی شامل ہیں جو بینائی سے محروم ہوچکے ہیں۔
ڈاکٹر یوسف کے مطابق 8 جولائی سے اب تک اسپتال میں چھرے لگنے سے زخمی ہونے والے ہزاروں افراد کا علاج کیا جاچکا ہے۔ ” چھرے لگنے سے زیادہ تر زخم کمر سے اوپر آئے ہیں۔ لوگوں کا سینہ، سر اور آنکھیں زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ سیکورٹی فورسز نے خاص طور سے ان کی آنکھوں کو نشانہ بنایا ہے۔”
پہلا حصہ پڑھیں ۔ کشمیر دُکھ کے درمیان انکار کی داستان
دوسرا حصہ پڑھیں ۔ دی لیجنڈ آف برہان وانی
تیسرا حصہ پڑھیں۔ اٹوٹ انگ اور دوسرے ملک کا پروپیگنڈا
سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے ترجمان راجیش یادیو کا کہنا ہے کہ انتہائی ناگزیر حالات میں چھروں والی بندوق کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ”فوج یہاں عام شہریوں کو نشانہ بنانے کے لیے نہیں۔ سی پی آر ایف نے اب تک انتہائی ضبط کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگر کوئی شخص زخمی ہوا ہے یا مارا گیا ہے تو ایسا اسی صورت میں ہوتا ہے جب وہ کیمپ کے قریب آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ کسی کو جسمانی طور پر نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، اسلحہ چھیننا چاہتے ہیں یا بنکر کو آگ لگانا چاہتے ہیں تب ایسے حالات میں چھروں والی بندوق چلائی جاتی ہے۔”
یادیو نے دعویٰ کیا کہ سیکورٹی فورسز کے 1600 سے 1800 افسر اور اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں تاہم جب اس سے مطالبہ کیا گیا کہ ان زخمیوں سے ملاقات کی جاسکتی ہے تو انکار کردیا گیا۔
ڈاکٹر یوسف کا ماننا ہے کہ زخم کھانے کا خوف مظاہرین کو روک نہیں سکتا۔ ”ہمارے پاس ایسے زخمی بھی آئے ہیں جن کی آنتوں میں چھید ہوچکے تھے اور وہ ہم سے بار بار یہ پوچھتے تھے کہ وہ کب واپس جاسکتے ہیں تاکہ مظاہروں میں شریک ہوسکیں۔”
محمد اور معراج نے تسلیم کیا کہ وہ سیکورٹی فورسز پر پتھراؤ کررہے تھے تاہم اس کے برعکس اکثر لوگ پُرامن طریقے سے مظاہرہ کررہے تھے، راہگیر تھے یا اپنے گھروں میں تھے جب انہیں چھروں والی بندوق یا گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔
سری نگر کے علاقے بیرواہ میں ایک پُرامن مظاہرے کے دوران سینے پر گولی لگنے سے 15 سالہ ریاض بھی زخمی ہوا۔ اس کا کہنا ہے کہ پولیس نے انہیں مظاہرے کی اجازت دی تھی لیکن بعد میں گولیاں چلادیں۔ دو لوگ اس واقعے میں مارے گئے اور 80 زخمی ہوئے۔ ریاض سے پوچھا گیا کہ کیا وہ دوبارہ مظاہرہ کرے گا تو اس نے مختصر سا جواب دیا، ”ہاں۔ ہم آزادی چاہتے ہیں۔”