قومی اسمبلی اجلاس میں ایم کیو ایم قائد کے خلاف حکومت اور ایم کیو ایم کی قراردادیں پیش ہوئیں جن میں قائد ایم کیو ایم کے اشتعال انگیز بیانات، نعروں اور کراچی میں میڈیا ہاوسز پر کی مذمت کی گئی ہے۔
حکومتی قرارداد میں 22اگست کی اشتعال انگیزی میں ملوث تمام قوتوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیاگیا تھا جبکہ ایم کیو ایم کے قرارداد میں کارروائی کی بات نہیں کی گئی تھی۔
متحدہ کی قرارداد میں ریاستی اداروں سے ایم کیو ایم پاکستان بنانے کے عمل کا خیر مقدم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ’’ایم کیو ایم پاکستان کے پیروکاروں کی تخلیق اور ترقی پاکستان میں کردار کو بھی سہراہا ہے۔‘‘
دونوں قراردادوں میں پارلیمنٹ، فوج،میڈیا، عدلیہ اور آئین کے تحت کام کرنے والے اداروں سے اظہار یکجہتی کیاگیا۔حکومتی قرارداد پر وفاقی وزیربرجیس طاہر کے دستخط تھے جبکہ متحدہ کی قرارداد پر 22 ارکان اسمبلی کے دستخط موجود تھے۔
قومی اسمبلی اجلاس میں ایم کیو ایم کے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی،کشورزہرا،سمن جعفری، سنجے پروانی اور علی راشد شامل نہیں ہوئے جن میں سے2کی وجہ ملکمیں عدم موجودگی تھی جبکہ 3ذاتی مصروفیات کے باعث اسلام آباد نہیں پہنچ پائے۔
تاہم حکومت کی قراردار متفقہہ طور پر منظور ہوئی جس کو ایم کیو ایم نے بھی قبول کیا۔
ایم کیو ایم کے پاکستان کے سربراہ فاروق ستار نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ 22 اگست ہمارے لئے سب سے برا دن تھا۔ ایم کیوایم کے بانی نے جب پاکستان سے لکیر کھینچی تو ہم نے بھی لکیر کھینچ دی ۔ آج پوری ایم کیو ایم پاکستان ایک طرف اور پاکستان مرد باد کہنے والے ایک طرف کھڑےہیں،پاکستان زندہ باد کہنے والوں کو سینے سے لگایا جائے ۔
میڈیا سے گفتگو میں فاروق ستار نے کہا کہ ہمیں مجرم بنا کر کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا ،۔ ہماری حب الوطنی پر سوال اٹھایا گیا ۔ ہم چاہتے ہیں کراچی کے بنیادی مسائل حل ہوں ، لوگوں کو روزگار اور یونیورسٹی و کالجز میں داخلے ملنے چاہئیں ، زبردستی وفاداریاں تبدیل کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے ۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ایک شخص کے بیان سے مسئلہ ہوا تو ہم نے انہیں اپنے آپ سے الگ کیا ۔ آئین و قانون کے تقاضے پورے ہوتے ہیں تو انصاف کے تقاضے بھی پورے ہونے چاہئیں ۔
فاروق ستار نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کے دوران شعر بھی پڑھا ’’تماشا تم نے دیکھا ہے، تماشا ہم بھی دیکھیں گے ‘‘۔