دی لیجنڈ آف برہان وانی

الزبتھ پرانم ۔ الجزیرہ

برہان وانی ایک 22 سالہ جنگجو کمانڈر تھا جو سوشل میڈیا استعمال کرنے کی وجہ سے گھرگھر جانا پہچانا نام بن گیا۔ 8 جولائی کو اس کی ہلاکت کے بعد کشمیر میں بھارت مخالف مظاہرے پھوٹ پڑے جو گزشتہ 6 سال کے دوران ہونے والے سب سے بڑے مظاہرے تھے۔

برہان وانی کی کہانی ایک افسانوی داستان بن چکی ہے۔ وہ 15 سال کی عمر میں ہائی اسکول کا ہونہار طالب علم تھا۔ ایک بار اسے سیکورٹی فورسز نے اس کے بھائی کے ساتھ روکا۔ اگرچہ برہان کے بھائی خالد نے سیکورٹی فورسز کے کہنے پر انہیں سگریٹ لاکر دئیے تاہم پھر بھی انہوں نے اسے مارا پیٹا اور اس کی بائیک توڑ دی۔ برہان وانی نے اس واقعے کے بعد اپنی پڑھائی ادھوری چھوڑ دی اور حزب المجاہدین تنظیم میں شمولیت اختیار کرلی جو کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنانا چاہتی ہے۔ بھارت، امریکا اور یورپی یونین اس تنظیم کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔

خالد کو پچھلے سال سیکورٹی فورسز نے یہ الزام لگا کر مار ڈالا کہ وہ برہان کے لیے جنگجوؤں کی بھرتیاں کررہا ہے تاہم ان کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ سیکورٹی فورسز نے خالد کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا جس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ ایک علیحدگی پسند رہنما کا بھائی تھا۔

برہان وانی کے جنازے میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور مظاہرین سڑکوں پر اُمڈ آئے۔

عمیر گل نئی دلی کے جامعہ ملیہ اسلامی میں ایک ریسرچر ہیں، ان کا ماننا ہے، ”وانی نے جتنے لوگ اپنی زندگی میں بھرتی کرنے تھے اس سے کہیں زیادہ وہ اپنی قبر سے بھرتی کرے گا۔”

پورے کشمیر میں برہان کا نام سنائی دے رہا ہے۔ مساجد کے لاؤڈ اسپیکرز میں اس کی شان میں قصیدے پڑھے جارہے ہیں۔ دیواروں پر جگہ جگہ ”مجاہد آزادی برہان بھائی” اور ”زندہ ہے برہان” کی گرافٹی میں اس کا نام دیکھا جاسکتا ہے۔

سری نگر میں بھارت کے خلاف ہونے والے مظاہرے میں شریک 19 سالہ عمر کا کہنا ہے ، ”برہان دہشت گرد نہیں تھا۔ وہ مجاہد آزادی تھا۔ وہ ہمارے لیے ایسے ہی تھا جیسے بھارتیوں کے لیے گاندھی تھا۔”

سری نگر کے مظاہرے میں شریک 19 سالہ فیضان یونیورسٹی کا طالب علم ہے۔ وہ کوئی 20 کے قریب لڑکوں اور آدمیوں کے ساتھ مل کر سیکورٹی فورسز پر پتھراؤ کررہا تھا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ ایسا کیوں کررہے ہو تو اس نے جواب دیا ”آزادی کے لیے، اور کوئی حل تو ہے نہیں۔ بھارت 1947 سے ہم پر مظالم ڈھارہا ہے۔ ہزاروں نوجوان شہید اور زخمی ہوچکے ہیں۔ بھارتی سیکورٹی فورسز ہماری مساجد پر حملہ کرتی ہیں۔ کھڑکیاں توڑتی ہیں۔ جب ہم عبادت کررہے ہوتے ہیں تب ہمارے گھروں میں گھس آتی ہیں۔ ہماری ماؤں کو مارتی ہیں۔ بہنوں کو پیٹتی ہیں۔ ہم بھارتی حکومت سے انتقام لینا چاہتے ہیں۔”

فیضان کا نشانہ سنٹرل ریزرو پولیس فورس کے 20 اہلکاروں کا ایک جتھا ہے جو کچھ فاصلے پر اپنی حفاظتی شیلڈز کے ساتھ موجود ہے۔

سب انسپکٹر ہری اوم کا کہنا ہے کہ یہ لوگ صورتحال کی حقیقت سے ناواقف ہیں۔ وہ لوگ جو پاکستان کے نعرے لگارہے ہیں تاریخ بھول چکے ہیں۔ پاکستان ایک بار حملہ کرچکا ہے تب ہم نے آکر ان لوگوں کو بچایا تھا اور ہم اب بھی یہاں ان کی حفاظت کے لیے کھڑے ہیں۔

جب ہری اوم سے دیوار پر تحریر ”بھارتی کتو واپس جاؤ” کے بارے میں پوچھا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ یہ لوگوں کو بھٹکانے کے لیے کسی دوسرے ملک کا پروپیگنڈا ہوسکتا ہے۔ ”مقامی سیاستدان بچوں کے دماغ خراب کررہے ہیں۔ مظاہرین کے اس گروہ کو دیکھیں، 5 سال کا بچہ پتھر برسا رہا ہے۔ 3 سال کا بچہ مظاہرے میں شریک ہے۔ ایک بچہ جو کچھ سیکھتا ہے وہ کبھی نہیں بھولتا۔ تاہم پھر بھی ہم ان لوگوں کو اپنا مانتے ہیں۔”

سب انسپکٹر کے الفاظ کشمیر پر بھارت کی روایتی تاریخ اور موجودہ حکومت کے نقطہ نظر کی بازگشت ہیں۔

پہلا حصہ پڑھیں ۔ کشمیر دُکھ کے درمیان انکار کی داستان

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: