مدر ٹریسا کو اگلے ماہ سینٹ کا درجہ دیئے جانے کا امکان ہے ۔ وہ کیتھولک تاریخ میں یہ اعزاز احاصل کرنے والی پہلی خاتون ہوں گی ۔ تاہم سخاوت اور عظمت کے بلند مینارے پر فائز مدر ٹریسا سے متعلق کچھ ایسے حقائق منظر عام پر آئے ہیں جو بہت تاریک ہیں۔
مدر ٹریسا کے ساتھ ایک طویل عرصہ کام کرنے والے ڈاکٹر اروپ چیٹرجی کا کہنا ہے کہ راہبہ ٹریسا غریبوں میں سے غریب ترین کی مدد کی دعویدار تھیں مگر وہ ان کا اصل کام کیتھولک چرچ کے ایجنڈے کا فروغ تھا ۔
ان خیراتی اداروں میں بے سہارا افراد کو جبری طور پر عیسائی بنایا جاتا تھا ۔ خیراتی اداروں میں سقوط ڈھاکہ کے بعد مشرقی پاکستان سے کلکتہ آ کر بسنے والی عورتوں اور بچوں کی عصمت دری ہوتی اور انہیں بطور غلام فروخت کیا جاتا ۔
راہبہ ٹریسا صرف انہی جھونپڑ پٹیوں میں کام کرتی تھیں جہاں ان کا کیتھولک ایجنڈا پورا ہوتا۔ اس کے علاوہ کلکتہ کے سیکڑوں غریب ترین علاقوں میں وہ کبھی نظر نہ آئیں۔
ڈاکٹر چٹر جی مزید کہتے ہیں کہ یہ خیراتی ادارے کسی عقوبت خانے سے کم نہ تھے جہاں راہبائیں بچوں پر ہر قسم کا تشدد کرتیں ۔ استعمال شدہ سرنجوں کا استعمال کیا جاتا اور زخمیوں کے خون والے کپڑے بھی اسی سنک میں دھوئے جاتے جہاں برتن دھلتے تھے ۔
1994 میں مشہور فلم میکر طارق علی نے راہبہ ٹریسا کا اصل چہرہ ڈاکیومنٹری فلم ’’ہیلز اینجلز ‘‘ یعنی دوزخ کے فرشتے میں پہلی مرتبہ دکھایا۔
ڈاکٹر چٹر جی کا کہنا ہے کہ راہبہ ٹریسا کے خلاف بات اس لئے نہیں کرتے کیونکہ رابند ناتھ ٹیگور کے بعد اسی نے بھارت کو دوسرا اور آخری نوبل پرائز دلوایا۔