افغانستان میں رواداری کی فتح

سید مدادی(الجزیرہ)

افغانستان میں امریکی یونیورسٹی پر 24اگست کو ہونے والے حملے میں جاں بحق جمشید نے اپنی فیس بک پر لکھا تھا کہ ”موت کا دن متعین ہے لیکن ہم اس ڈر سے جینا نہیں چھوڑ سکتے”۔ اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ دن اتنی جلدی آ جائے گا۔ قاتل اسے ایک بدترین موت دیں گے۔

15سال تک افغانستان میں دہشت گردوں کا نشانہ یا تو سرکاری افسر تھے یا غیر ملکی فوج، لیکن اب سب تبدیل ہو گیا ہے۔

اب دہشت گرد نئے افغانستان کی اقدار کو نشانہ بنا رہے ہیں یعنی تعلیم، سول سوسائٹی اور آزاد میڈیا۔ ان نئی اقدار کو خوف زدہ کر کے انہیں دوبارہ غلام بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

حملے کی رات میری زندگی کی بدترین رات تھی۔میں یونیورسٹی میں پھنسے اپنے  ساتھی پروفیسرز اور دوستوں کو کال ملانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن ان کے بارے میں کوئی بھی خبر نہیں مل رہی تھی۔

اے یو اے ایف صرف ایک یونیورسٹی نہیں بلکہ ہمارا دوسرا گھر بھی ہے۔ یہ ہمارے لئے افغانستان کے مسائل سے ایک راہ فرار بھی ہے۔

یہ یونیورسٹی ہمیں کابل کے مسائل سے دور لے جاتی ہے۔ یہ ہمیں زندگی کی مشقت سے دور ایک خوبصورت زندگی کا خواب دکھاتی  ہے۔ یہ یونیورسٹی عام غیر محفوظ مقامات  سے دور ایک محفوظ پناہ گاہ تھی جہاں ذہین لوگ آپس میں کھل کر گفتگو کر سکتے تھے۔

یہ صرف ایک درس گاہ نہیں بلکہ فہم و فراست کا دریا ہے جہاں لوگ ایک دوسرے سے اختلاف کی بات کر سکتے ہیں۔ شاید غیر افغان اس سب کو سمجھ نہ پائے کہ ہمارے لئے یہ کتنی اہم جگہ ہے۔ اس وجہ سے یہاں پڑھنے والے تمام طلبا کا اس جگہ سے ایک پاکیزہ تعلق ہے۔

2004میں اس یونیورسٹی کے قیام کے بعد یہاں سے تعلیم یافتہ نوجوانوں نے بہترین  اسناد حاصل کیں۔ وہ اس وقت دنیا کی بہترین کمپنیوں میں نوکریاں کر رہے ہیں۔ کئی نوجوان سرکاری عہدوں پر موجود ہیں۔ یہاں کے طلبا نے دنیا بھر سے اسکالر شپس حاصل کیں۔

اس یونیورسٹی پر حملہ افغانستان کے مستقبل پر حملہ تھا۔ اس حملے میں ایک نوجوان پروفیسر ناقب بھی مارا گیا۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ وہ نوجوان فل برائٹ اسکالر شپ سے واپس آیا اور اسی یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کر دیا۔ اپنے پہلے لیکچر کے دوران وہ کچھ پریشان تھا۔اس کی زبان لڑکھڑا رہی تھی۔ میں اس کے پاس گیا اور کہا کہ اب افغانستان کا مستقبل تمھارے ہاتھ میں ہے۔ پریشان مت ہوں، طلبا کو حوصلہ دو۔

اس کے بعد وہ یونیورسٹی کے بہترین اساتذہ میں شامل ہو گیا۔ عالمی قوانین پر اس سے بہتر کسی کی دسترس نہیں تھی۔

وہ 3کروڑ افغانوں کو قرض اتارنے آیا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ افغانستان بھی اس یونیورسٹی کی طرح بن جائے۔ وہ افغانستان کو تبدیل کرنے کی خاطر دنیا کی تمام اسائش چھوڑ کر یہاں آیا تھا۔

اسی طرح سمیع سوار ی بھی مارا گیا۔ وہ سڑکوں پر گاتا تھا لیکن پھر اس نے یونیورسٹی سے باقاعدہ تعلیم حاصل کی اور اپنے فن کو نکھارا۔ اس نے کینیڈا میں بھی جا کر پرفارم کیا۔

اس حملے نے ثابت کر دیا کہ دہشت گرد تعلیم کے مرکز سے خوف زدہ ہیں۔

تاہم مظلوموں پر یہ حملہ اپنی نوعیت کا پہلا نہیں۔ اس سے قبل ہزارہ برادری کو سڑک پر نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے میں داعش نے 80افراد کو قتل اور 230کو زخمی کیا۔اس حملے کے دوران میں بھی زخمی ہوا۔ ایک تیز دھار چیز میرے دال کے قریب سے آر پار ہو گئی۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ میں معجزانہ طور پر بچ گیا ہوں۔

اسپتال میں زیرعلاج ہونے کے باوجود میں مختلف زخمی نوجوانوں کے پاس گیا۔ ان سب کا کہنا تھا کہ آخر انہیں کیوں مارا جا رہا ہے۔ وہ تو بس اپنے شہری حقوق کے لئے مظاہرہ کر رہے تھے۔ ہزارہ برادری کا مظاہرہ تو صرف بجلی کے حصول کے لئے تھا، یہ بے چارے نوجوان تو تعلیم حاصل کرتے ہیں، ان کی کسی سے کوئی لڑائی نہیں۔

روان سال ٹولو نیوز کے آٖفس پر بھی گاڑی کی مدد سے خود کش حملہ کیا گیا۔

اب افغانستان میں صرف ایک ہی لڑائی چل رہی ہے۔ نئی نسل کو کون دہشت گرد بناتا ہے اور کون انہیں تعلیم یافتہ بنا کر دنیا کے ساتھ رہنے کے قابل بناتا ہے۔ ایک ایسا شہری جو انسانیت، جمہوریت اور تعلیم کی قدر کرے۔

اے یو اے ایف  کی اصل طاقت معاشرے میں رواداری کا قیام ہے۔ یہ لوگوں کو کمپویٹر سکھانے کی طاقت سے بڑی طاقت ہے۔ یہ ادارے لوگوں کو دہشت گردی کے خلاف لڑنا سکھا رہا ہے کیونکہ یہاں دہشت گردوں کے نظریات کی نفی کی جاتی ہے۔

کابل کے اسپتالوں میں موجود نوجوان جلد از جلد اپنی یونیورسٹی جانا چاہتے ہیں  اور اسے پھر آباد کرنے کے لئے پر عزم ہیں۔ اس حملے نے ہمارے عزم کو متزلزل نہیں کیا کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ تعلیم سے ہی ان دہشت گردوں کو شکست دی جا سکتی ہے۔میں نے 2015کے دھماکے بعد اپنی یونیورسٹی کے ایک کوف زدہ غیر ملکی پروفیسر کو کہا کہ ہم آج ڈبل کام کریں گے تاکہ ان دہشت گردوں کو بتایا جا سکے کہ ہم دوبارہ وحشت کے دور میں لوٹنا نہیں چاہتے، یہ سن کر اس کو رنگ سرخ ہو گیا اور وہ واپس کلاس میں چلے گئے۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: