امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے شام میں ترکی کے حمایت یافتوں باغیوں اور کردوں میں سیز فائر کے اعلان کے بعد اب ترکی نے بیان جاری کیا ہے کہ ان کا کردوں سے سیز فائر کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ امریکی وزارت خارجہ نے دعویٰ کیا تھا کہ دونوں دھڑوں میں عارضی جنگ بندی ہوئی ہے اور اب دونوں صرف داعش کے خلاف جنگ لڑیں گے۔
ترکی کے وزیر برائے امور یورپ نے سرکاری ٹی وی کو انٹرویو میں کہا ہے کہ ایسا کوئی معاہدہ ہمیں قابل قبول نہیں۔ ترکی اور کردوں میں مصالحت ممکن نہیں۔ ترکی ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے۔
ادھر امریکی سنٹرل کمانڈ کے ترجمان نے بھی کہا ہے کہ ’’یہ ایک عبوری معاہد ہ ہے جس پر ایک مستحکم امن کی بنیاد قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
شام میں مشترکہ کرد فوج نے بھی کہا تھا کہ ترکی کے ساتھ معاہدہ ہو گیا ہے اور اب داعش کو ہرانے کے لئے پوری طاقت صرف کی جائے گی۔
تاہم اس تضاد کے بعد ایک بار پھر امریکا اور ترکی کے درمیان تنازع واضح ہوا ہے۔ دونوں کے درمیان ناکام بغاوت کے بعد حالات کشیدہ ہیں۔ ترکی نےامریکا سے بغاوت کے مبینہ ماسٹر مائنڈ فتح اللہ گولن کی حوالگی کا مطالبہ کر رکھا ہے۔
ترکی کے موجودہ اقدا م سے دنیا بھر میں طیب اردوان پر ایک بار پھر تنقید شروع ہو گئی ہے جن کی فوج شام کے اندر گھس کر کردوں کو نقصان پہنچا رہی ہے ۔ ترکی کے اس آپریشن سے داعش کو سرحدی علاقوں میں قدم جمانے کا موقع بھی مل رہا ہے۔