لبنان کے لاپتا افراد،کوبتان کی کہانی

ایلی فیرس (الجزیرہ)

لبنان کی خانہ جنگی میں ہزاروں لوگ لاپتا ہوئے۔ان کا تعلق تمام مذاہب، نسلوں اور فرقوں سے تھا۔ یہ ہر عمر کے لوگ تھے۔ ان لاپتہ افراد کے کچھ خوش نصیب لواحقین  اپنے پیاروں کے انجام تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ تاہم اب بھی ہزاروں افراد موجود  ہیں جن کو اپنے پیاروں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا مر گئے۔

ان کے بارے میں بس اتنا ہی معلوم ہے کہ وہ ایک دن لاپتا ہوئے۔ کوبتان خاندان بھی انہیں میں سے ایک ہے جو خانہ جنگی کے عہد سے اپنے لاپتا والد کو ڈھونڈنے کی تلاش کر رہا ہے۔

کوبتان خاندان 1986کی عیدالاظہیٰ کو خوشیاں منانے کے لئے بیدار ہوئے لیکن ان کو معلوم نہیں تھا کہ جب یہ دن ڈھلےگا تو ان کی زندگی تبدیل ہو جائے گی۔ سمیرا اور محمد کے دونوں بیٹوں کو وہ دن اچھی طرح یاد ہے۔ بیروت کے اس خاندان نے صبح اٹھ کر میٹھا کھایا۔ نئے کپڑے پہنے اور عید ملی۔ پھر وہ اپنے والد سے گلے ملے، انہیں خدا حافظ کہا کیونکہ محمد اپنی دادی کو ملنے ان کے گھر جا رہے تھے۔  والد کی دادی نے ہی انہیں پالا تھا کیونکہ ان کے والدین بچپن میں ہی دنیا سے رخصت ہو گئے۔

یہ وہ آخری دن تھا جب انہوں نے اپنے والد کو دیکھا۔ وہ اس وقت 32سال کے تھے۔

محمد کوبتان کا بڑا بیٹا جلال اس وقت 3سال کا تھا۔ اس واقعے نے جلال کی ساری زندگی تبدیل کر دی۔ ان کے خاندان کو کافی دیر بعد احساس ہوا کہ ان کے گھر کا سربراہ لاپتا ہے۔ اس وقت فون یا کوئی اور ذریعہ نہیں تھا۔ بس صرف سفر سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ وہ کب واپس آئیں گے۔ ان کی دادی کا گھر طارق الجدید میں تھا۔ یہ بیروت کا نواحی علاقہ تھا۔ تاہم جب دیر تک وہ نہیں آئے تو اندازہ ہوا کہ کچھ غلط ہو گیا ہے۔

جلال کو یاد ہے کہ ان کی والدہ پاگلوں کی طرح بھاگتی ہوئی دادی کے گھر گئی لیکن وہاں جا کر معلوم ہوا ہے کہ محمد کوبتان کبھی وہاں پہنچے ہی نہیں۔ وہ راستے میں تمام جاننے والوں کے گھر گئیں، ایک ایک در پر دستک دی کہ شاید انہیں شوہر کے بارے میں کوئی معلومات مل جائے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔

کسی نے بھی انہیں نہیں دیکھا تھا۔

shadow

جلال اپنے والد کے اغوا کی داستان قبول نہیں کرتا۔ اس کا کہنا ہے کہ ہزاروں دوسرے افراد کی طرح ان کےوالد کو بھی لاپتا کیا گیا۔ ان کا کوئی نشان نہیں ملا۔ جیسے باقی افراد کے نہیں ملے۔ ’’یہ سب خانہ جنگی کا کیا دہرا ہے۔‘‘

باپ کے لاپتا ہونے کاغم صرف جلا ل جانتا ہے۔ اس نے پوری زندگی بس ایک ہی سوال سے بچنے کی کوشش کی کہ ’’آپ کے والد کہاں ہیں؟ ‘‘جلال کا کہنا ہے کہ جب وہ سات سال کا تھا تو ایک دن کلاس میں اس سے پوچھا گیا کہ ’’آپ کے والد کہاں ہیں؟‘‘ جلال کے مطابق یہ اس کی زندگی کا بدترین دن تھا۔

جلال کا کہنا ہے کہ جب اس نے ابتدائی طور پر لوگوں کو بتایا کہ وہ لاپتا ہیں تو سب اس سے دور رہنے لگے۔ اس کے بعد جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے اس نے کہنا شروع کیا کہ وہ بیرون ملک دورے پر گئے ہیں۔

محمد کوبتان کے بارے میں آج تک کچھ پتا نہیں چل سکا۔

کوبتان  خاندان نے محمد کو ڈھونڈنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی لیکن کوئی بھی جواب نہ مل سکا۔ اس خانہ جنگی میں شامل تمام گروہوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے محمد کوبتان کو لاپتا نہیں کیا اور نہ ہی اب وہ ان کے پاس ہے۔

اس صورت میں سمیرا کے پاس بس ایک ہی راستہ تھا کہ وہ اپنے بچوں کی ماں اور باپ دونوں بن جائے۔ خاندان کی معاشی حالت انتہائی ابتر تھی۔ سمیرا نے اس دور میں جتنے بھی کام ملے کیے۔ اس نے کئی گھروں میں کام صفائیاں کیں۔ اپنے بچوں کی جہاں تک ممکن ہو سکا بہتر پرورش کرنے کی کوشش کی۔ انہیں ہر طرح کی سہولت فراہم کی۔ تاہم سمیرا نے کبھی دوسری شادی نہیں کی کیونکہ محمد ہی اس کی زندگی کی پہلی اور آخری محبت تھی۔

جلال بتاتا ہے کہ اس کی والدہ ہر روز والد کے کپڑے دھوتی، ان کو استری کر کے الماری میں لگاتی، والد کی شیوا کا سامان ہمیشہ باتھ روم میں موجود رہا۔ خانہ جنگی میں ان کا گھر بری طرح متاثر ہوا جس کہ وجہ سے انہیں دوسری جگہ جانا پڑا۔ ایسے میں والد کی بہت سی چیزیں بھی تباہ ہو گئیں۔

جلال اب 33سال کا ہو گیا ہے۔ اس کے والد بھی اسی عمر میں لاپتا ہوئے۔ اس کا کہنا ہے کہ ’’اب ہم نے تسلیم کر لیا ہے کہ وہ دنیا میں نہیں رہے۔ تمام دلیلیں یہی کہتی ہیں کہ اب وہ دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ اس نتیجے پر پہنچنے میں کافی مشکل ہوئی لیکن اب حقیقت کو تسلیم کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہا۔‘‘

پھر بھی جلال کہتا ہے کہ ’’دل میں اب بھی کبھی کبھی امید پیدا ہوتی ہے کہ شاید وہ زندہ ہوں۔ انہوں نے یہ 30سال گزار لیے ہوں اور ایک دن وہ میرے سامنے آ جائیں اور گلے سے لگا لیں۔ یہی امید لاپتا ہونے والوں کے لواحقین کے لئے سب سے بڑی اذیت ہے۔‘‘

جلال اور ایسے ہزاروں خاندانوں کے لئے ہر دن اذیت کا ہے۔ لاپتا ہونے والوں کی یاد روز خون بن کر رستی ہے۔ جلال بس یہی کہتا ہے کہ ’’میں بس میں انہیں ایک بار دیکھنا چاہتا ہوں، انہیں گلے لگانا چاہتا ہوں، انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ میں آپ سے بے تحاشا محبت کرتا ہوں۔ جو ہو گیا سو ہو گیا، اب کچھ نہیں ہوتا۔ میں ہوں آپ کی خدمت کے لئے۔‘‘

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: