ڈی ای او آفس چکوال کر پشن کا گڑ ھ، احتساب کب ہو گا؟

کو مل سعید

پاکستان میں تعلیم کے فروغ کےلئے نت نئے طر یقے اور پا لیسیاں وضع کی جا رہی ہیں اور ان سب پا لیسیوں اور طر یقوں میں زیر عتاب آ نے والے صرف اور صرف مظلو م اساتذہ ہیں۔

اساتذہ اب سرکاری نوکری کو اپنے لئے وبال جان سمجھنے لگے ہیں کیو نکہ ذرا سی لغزش پہ جر ما نہ ،بے عزتی اور وارننگ بھی اس طر یقے میں دی جا تی ہے جیسے قتل کے مجرم ہوں ۔ ما ہا نہ میٹنگز میں ڈی ای او کا ایک لمبا لیکچر ہو تا ہے جس میں اساتذہ کو رشوت اور بد دیا نتی کا مر تکب قرار دے کر دیانت کا سبق پڑ ھا یا جا تا ہے ۔

ان کے خیال سے اساتذہ اسکو لوں میں جا کر صرف اور صرف ٹا ئم پا س کر تے ہیں اور ان کے نزدیک یہ بد دیا نتی ہے ۔ایسے میں وہ اساتذہ جو اپنی ڈیو ٹی پو ری ذ مہ داری سے ادا کر تے ہیں خود اپنی نظروں میں مجر م بن کر دل برداشتہ ہو جا تے ہیں ۔

آ ج میرا قلم اس جا نب اٹھا ہے جہاں پر اساتذہ کو کبھی اسکو لوں میں تعداد کم ہو نے کی و جہ سے تو کبھی اسکو لوں میں صفا ئی نہ ہو نے کی و جہ سے (چا ہے وہ صفا ئی ایک ٹافی کے ریپر سے وزٹرز کو نظر نہ آ تی ہو )مجر م کے طور پہ پیش کیا جا تا ہے ۔

ڈسٹرکٹ ایجو کیشن آ فس چکوال کہنے کو تو تعلیمی امور کا ذمہ دار ادارہ ہے مگر اس کی حقیقت یہ ہے کہ یہی آفس کر پشن کا گڑ ھ ہے۔ یہاں  پر ایک چھوٹی کر سی سے لے کر بڑی تک ر شو ت کے بغیر کسی کی پہنچ نہیں اور رشوت کے بغیر وہ کسی سے با ت تک نہیں کر تے ۔

میر ے پیا رے نبی ﷺ کا ارشاد پا ک ہے کہ ” رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں دوزخی ہیں” مگر وہاں معا ملہ الٹ ہے۔  رشوت کو کام ہو نے کی ضمانت تصور کیا جاتا ہے۔  اس لئے لینے والے بخو شی لیتے ہیں اور دینے والے با امر مجبوری۔اس محکمہ میں تحصیل تلہ گنگ اور اس کے مو اضعا ت سے اساتذہ کو چکوال آ فس طلب کیا جا تا ہے۔

ان دفاتر میں خواتین کے بیٹھنے کی کو ئی جگہ نہیں۔  وہ مردوں کے ہجو م میں کھڑی ہونے پر مجبور ہوتیں ہیں اور ہر گزرنے والے کی وحشت ناک نظروں کا سا منا کر تی ہیں۔ اس سلوک کی وجہ سے وہ شدید ذہنی کو فت کا شکار رہتی ہیں ۔ کسی بھی کام کی تکمیل کےلئے کلر کوں کے پاس حاضری اور ان کا جیب خرچہ ضروری ہو تا ہے ورنہ د ھکے کھانے اور خوار ہو نے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو تا۔

کلرکوں کا اصول ہے کہ وہ کو ئی بھی فا ئل اندر پہنچا نے کےلئے رشوت لیتے ہیں اور اوکے کر تے ہیں۔  کئی ایک تو ایسے بھی مو جود ہیں جو ایسی مجبور اساتذہ سے جو ٹرانسفر اور دیگر معاملات کے سلسلے میں دراخوستیں لے کر جا تیں ہیں، 20 سے 30 ہزار روپے بطور رشوت لیتے ہیں اور پھر کام بھی نہیں کرتے۔

کلر ک بھی اس معا ملے میں کسی سے کم نہیں ۔گز شتہ د نوں اسکو ل آ ڈ ٹ کے سلسلے میں آ فس میں جا نے والے اساتذہ کی فا ئلوں پر مہر لگا نے کے 200روپے و صول کئے جا تے رہے جبکہ یہ کام ان کی ڈ یو ٹی میں شا مل ہے ۔

ایسے میں اساتذہ رشوت دینے پر مجبور ہوتے ہیں اور نہ دینے کی صورت میں ان کی فا ئلیں شا ید بغیر مہروں کے میز پہ د ھر ی رہتیں ۔ ایجو کیشن ڈپا رٹمنٹ میں ای ڈی او صاحب کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے پاس آ نے والے مسائل کو تسلی سے سن کر ان کے تدارک کر یں نا کہ صرف ٹیچرز کو جر ما نے کی سزا دے کر بری الذ مہ ہو جائیں۔

خواتین ٹیچرز کا کہنا ہے کہ بعض اوقات موقف سنے بغیر ان کو دو ،دو ہزار جر ما نے کر کے فارغ کر دیتے ہیں ۔ ایک گا ﺅں کی چند خواتین ایک درخواست لے کر ان کے آفس میں گئیں جہاں پر ای ڈی او مو جود تھے مگر انہوں نے میٹنگ کا بہانہ کر کے پورے چھ گھنٹے انتظار کروایا۔ اس طو یل انتظار کے باوجود وہ آ فس سے نکلے اور گاڑی میں بیٹھ گئے۔

ان خواتین کے شو ہر ان کے سا تھ تھے۔  وہ جلد ی سے ان کی گا ڑی کے قر یب گئے اور شیشے سے درخواست اندر تھما نے کی نا کام کو شش کی مگر انہوں نے با ت سنے بغیر گاڑی دوڑا دی اور وہ صاحب اور ان کی ہمراہ خواتین گاڑی کی د ھول میں د ھواں دھواں چہرہ لئے دیکھتی ہی رہ گئیں تو کیا یہ اس محکمے کی کارکردگی پہ سوال نہیں ؟

مزید یہ کہ اس محکمے میں ر شوت لینے والے افراد سے کو ئی پو چھ گچھ نہیں کی جا تی۔ اگر نہیں کی جا تی تو کیوں ؟اگر کی جا تی ہے تو کیا نتیجہ بر آ مد ہو ا ہے ؟

یہ سوال میرے نہیں میری تحصیل تلہ گنگ کی تما م خواتین اساتذہ کے ہیں جو وہاں پر رشوت دے کر اپنے حقوق کی جنگ لڑ تی ہیں اور پھر بھی ذلت برداشت کر تی ہیں۔ اس سے قبل کئی مر تبہ اس سسٹم کے خلا ف کئی خواتین اساتذہ سراپا احتجا ج ہو ئیں ہیں مگر نتا ئج ہمیشہ کی طرح صفرہی رہے ۔

اس ساری صورت حال کو جا ننے کے باوجود اگر اس محکمے کا قبلہ درست نہ کیا گیا تو وہ دن دور نہیں جب یہ ’’محکمہ رشوت ‘‘کے نام سے جانا جا ئے گا ۔حکو مت پنجا ب سے تمام خواتین اساتذہ کا یہ مطا لبہ ہے کہ ان کے خلا ف ایکشن لیا جا ئے اور اس محکمے کو فرض شناسی اور ایمانداری کے اصولوں سے مز ین کیا جا ئے اور محکمے کو پا بند کیا جا ئے کہ خواتین اساتذہ کے ساتھ نرم اور شائستہ انداز میں بات کی جا ئے ۔

خواتین اساتذہ اس قوم کی معمار ہیں۔  ان کی عزت نفس کو مجروح کر نا، ان کے اندر اس مقدس پیشے سے نفرت کا عنصر ابھا رنے کے مترادف ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ قوم کے بچوں کے ساتھ ظلم و زیا دتی ہے ۔جو قومیں اپنے معماروں کی اپنے محسنوں کی عزت کو گروی ر کھ دیتے ہیں ہمیشہ عروج سے قبل ہی زوال ان کا مقدر بنا ہے ۔

اگر تعلیم کا فروغ حکو مت کا مشن ہے تو صرف تعلیمی اداروں پہ تو جہ دینا کافی نہیں اس کے لئے پورے تعلیمی محکموں کی بھی جا نچ پڑ تا ل ضروری ہے ۔پورے محکمے کی جا نچ پڑ تال کر کے غلطی کے مر تکب افراد کو تنبیہ کی جا ئے ورنہ رشوت کی جڑ پھیل جا ئے گی جو ہمارے پورے معاشرے کےلئے نا سور ہے ۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: