مشرق وسطیٰ کی تاریخ بدلنے والی دو جنگیں

 (اکھلیش پلالامری ( نیشنل انٹرسٹ

مشرق وسطیٰ کا نقشہ پانچ سو سال پہلے لڑی جانے والی دو جنگوں نے بدلا ، ان جنگوں نے یہاں کی سیاست اور مذہب پر سائیکس پیکوٹ معاہدے ( جس کے تحت سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے کیے گئے ) سے زیادہ اثر ڈالا ۔ یہ دو جنگیں چالدران اور مرج دبیق کی لڑائیاں تھیں ۔ چالدران عثمانیوں اور صفیوں جبکہ مرج دبیق عثمانی اور مملوک بادشاہوں کے درمیان لڑی گئی ۔

سولہویں صدی کے شروع میں عثمانی حکمرانوں نے ترکی کے ساتھ ساتھ بلقان کے زیادہ تر حصے پر قبضہ جما لیا تھا ، اب انہوں نے اپنی توجہ مشرق وسطیٰ کی طرف کی ۔ اس فوری توجہ کی اہم وجہ تیزی سے بڑھتی صفوی سلطنت تھی ۔ 1501 عیسوی میں مشرقی آذربا ئیجان سے حکومت کا آغاز کرنے والی صفوی سلطنت نے جلد ہی ایران ، افغانستان اور عراق تک اپنے پاوں پھیلا لیے تھے ۔ اب اس نے مشرقی ترکی کے بہت سے ترک اور کرد قبائل تک اپنا اثر و رسوخ پھیلانا شروع کر دیا تھا ۔ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے عثمانیوں نے براہ راست صفویوں سے ٹکراو کا فیصلہ کیا ۔ 23 اگست 1514 کو لڑی گئی چالدران کی جنگ کا نتیجہ عثمانیوں کی فتح کی صورت میں نکلا ، اور یوں صفوی سلطنت کے بڑھتے قدم رک گئے ۔ اس کے ساتھ ہی ترکی اور اس سے آگے شیعہ مسلک کا فروغ بھی رک گیا ۔ اس کے دو نتائج سامنے آئے ، اول ایرانی قوم پرستی اور شیعت کا ساتھ مضبوط ہوا ،دوسرا عثمانیوں کی سرپرستی میں سنی اسلام نے باقی خطے میں مضبوطی سے اپنے پاوں گاڑ لیے ۔

جنگ چالدران میں صفویوں کو شکست دے کر عثمانیوں نے اپنی سلطنت کے مشرقی حصے کو محفوظ بنا لیا ۔ اب سلطان سلیم اول کی توجہ جنوب مغرب کی طرف ہوئی جہاں مملوک سلطنت قائم تھی ۔ تین سو سال سے قائم مضبوط مملوک سلطنت میں مصر کے علاوہ مکہ ، مدینہ اور بیت المقدس کے مقدس شہر بھی شامل تھے ۔ مملوک سلطنت کا قیام ایک ایسے وقت میں ہوا جب منگول حملوں کی وجہ سے مسلم دنیا شدید انتشار کا شکار تھی ۔ اس کی بنیاد 1250 عیسوی میں غلاموں کے ایک گروہ نے صلاح الدین ایوبی کے جانشینوں سے تخت چھین کر رکھی ۔ مملوکوں کی شہرت اس وقت ہوئی جب انہوں نے 1260 عیسوی میں عین الجالوت کی مشہور جنگ میں منگولوں کو شکست دے کر ان کے بڑھتے قدم روک دئیے ۔ 1258 میں منگولوں کے ہاتھوں سقوط بغداد کے بعد عباسی خاندان کا ایک شخص بھاگ کر مملوکوں کے پاس آ گیا تھا ، جس نے مملوک سلطنت کی آشیر باد سے شیڈو خلافت قائم کی ۔ تاہم سولہویں صدی کے آغاز تک مملوک بہت کمزور ہو چکے تھے ۔

عثمانیوں کو خدشہ تھا کہ صفوی اور مملوک حکمرانوں میں ان کے خلاف اتحاد ہو سکتا ہے ۔ چالدران کی جنگ کے بعد دونوں میں ایک معاہدہ بھی ہوا جس کے تحت اگر عثمانیوں نے دوبارہ صفوی سلطنت پر حملہ کیا تو مملوک ان کی حمایت میں شام کی جانب سے ترکی پر حملہ کر دیں گے ۔ 1516 عیسوی میں عثمانیوں نے مملوک سلطنت پر حملے شروع کر دئیے ۔

شام پر عثمانی حملے شروع ہوئے تو مملوک حکمرانوں کو اندازہ ہوا کہ وہ جنگی اعتبار سے کمزور ہیں ۔ حلب کے دفاع کے لیے سلطان قنسوح الغاوری نے جو فوج بھیجی تھی ، اس نے الٹا شہر کو لوٹنا شروع کر دیا جس سے مقامی لوگوں میں ان کے خلاف نفرت پیدا ہو گئی ۔ مرج دبیق کی جنگ کے دوران حلب کے گورنر خیر بے نے مملوکوں سے غداری کرتے ہوئے فوج کے بائیں حصے کو پیچھے ہٹنے کا حکم دے دیا اور یہ افواہیں پھیلانا شروع کر دیں کہ سلطان قنسوح مارا گیا ہے ۔ جنگ میں فتح کے بعد عثمانیوں نے خیر بے کو مصر کا گورنر بنا دیا ۔

marj-dabiq modified
جنگ میں سلطان سمیت سات ہزار سپاہیوں کے مارے جانے کے بعد مملوکوں نے پسپائی اختیار کی ، اس کے بعد مملوک سلطنت کا زوال رک نہ سکا ۔ 22 جنوری 1517 کو قاہرہ کے قریب ریدانیا کی جنگ میں فتح سے مصر عثمانی سلطنت کا ایک صوبہ بن گیا ۔ شریف المکہ نے بھی مملوکوں کے بجائے عثمانیوں سے اتحاد کر لیا اور یوں حجاز بھی عثمانیوں کے کنٹرول میں آ گیا ۔ اہم بات یہ کہ عثمانی شیڈو عباسی خلیفہ کو استنبول لے گئے اور خلافت عباسیوں سے عثمانیوں کو منتقل ہو گئی ۔ ( اگرچہ برصغیر میں مغل اور مغربی افریقہ میں سوکوٹو حکمران بھی خلافت کے دعویدار تھے )۔ یوں مرج دبیق کی جنگ نے آئندہ چار سو سال کے لیے مسلم دنیا خصوصی طور پر عرب دنیا پر عثمانی حاکمیت کو پختہ کر دیا ۔

عثمانی سلطنت میں یورپ اور مشرق وسطیٰ کی زیادہ تر تجارت استنبول اور حلب کے راستے ہونے لگی ، اور مصر ، عراق اور حجاز کی تجارتی اہمیت کم ہو گئی ۔ بغداد اور اسکندریہ جیسے عظیم شہر گمنام صوبائی مراکز کی شکل اختیار کر گئے ۔ ترکوں کے اقتدار میں عرب کلچر بھی شدید متاثر ہوا ۔ اس دوران عربی میں بہت کم ادبی کام ہوا ، مسلم دنیا میں اب ترکی ، فارسی اور اردو کا راج تھا۔

مرج دبیق کی جنگ کے دیر پا مذہبی اثرات بھی ہوئے ۔ بیشتر عرب علاقوں پر قبضے اور خلافت کے اعلان کے بعد عثمانی حکمران زیادہ سخت گیر سنی بن گئے ۔ اس سے پہلے سلطنت عثمانیہ پر صوفی سنی اسلام کا اثر زیادہ تھا ۔ جیسے جیسے سلطنت بڑھی ، شرعی قوانین کے نفاذ اور تشریح کے لیے قاضیوں کی ضرورت بھی بڑھتی گئی ۔ یورپی کالونیل ازم کے پھیلاو کے دوران خلافت مسلمانوں کے لیے ایک نقطے کے گرد جمع ہونے کی حیثیت سے اہمیت اختیار کرتی گئی ۔ خطے کی قدامت پسندی اور اسلام کو اینٹی امپیریلسٹ کے طور پر پیش کرنا در اصل عثمانی دورہی سے چلا آ رہا ہے ۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: