چیف جسٹس سپریم کورٹ انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 2 رکن بینچ نے مردم شماری کی تاخیر سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
حکومت نے مارچ 2017 میں مردم شماری کرانے کی یقین دہانی کرائی تو چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تاثر نہیں دینا چاہتے کہ مردم شماری فوج کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ مارچ 2017 تک مردم شماری کرانے کی کیا یقین دہانی ہے؟کیا فوج 2017 میں میسر ہو گی؟ کیا اسلام آباد میں بھی مردم شماری کے لئے پاک فوج تعینات کی جائے گی؟
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومتی جواب میں مردم شماری کے نہ ہونے کو فوج کی عدم دستیابی قرار دیا گیا ہے جبکہ جی ایچ کیو کے خط میں تو فوج کی عدم دستیابی کا ذکر ہی نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جمہوری نظام کی بنیاد ہی مردم شماری میں ہے اور مردم شماری کے بغیر دیگر معاملات سمیت اسمبلی کی نشستوں کا تعین کیسے کیا جا سکتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ کیا حکومت ناکام ہو چکی ہے کہ ہر معاملہ فوج پر ہی چھوڑ دیا جائے مردم شماری کوئی الیکشن تو نہیں، جو ایک ہی دن میں منعقد کئے جائیں۔
سپریم کورٹ نے مردم شماری سے متعلق وفاقی حکومت کا جواب غیر تسلی بخش قرار دے کر مسترد کردیااور 31 اگست کو دوبارہ تحریری جواب جمع کرنے کا حکم دیا۔